• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطنِ عزیز اپنی تاریخ کے ایسے مرحلے پر نظر آرہاہے جس میں ہر چیلنج پوری توجہ اور یکسوئی کا طالب ہے۔ داخلی سطح پر معیشت کا بحران، مہنگائی اور بیروز گاری کی صورت حال عوام کیلئے پریشان کن ہےجبکہ بیرونی سطح پر مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورت حال اور ایف اے ٹی ایف جیسے اداروں کے مطالبات، مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور برادر مسلم ممالک کے باہمی اختلافات سے پیدا شدہ فضا جیسے طولانی تفصیل کے حامل اثرات ہیں۔اندرون ملک سیاسی بےچینی اس پر مستزاد ہے جسے جلد دور کیا جانا چاہئے۔ مولانا فضل الرحمٰن کی پارٹی جمعیت علمائےاسلام نے 9سیاسی پارٹیوں کی حمایت سے اسلام آباد میں جو دھرنا دے رکھا تھا اس کا اختتام اچھی خبر ضرور ہے مگر ’’پلان بی‘‘ کے نام سے ملک بھر میں شاہراہیں بند کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا گیا اس سے قومی زندگی بری طرح متاثر ہو گی۔ آمدورفت اور تجارتی مال کی ترسیل کا نظام متاثر ہونا حکومت کے لئے تو پریشان کن ہوگا مگر کئی حوالوں سے اس کا تعلق ریاستی سلامتی کے تقاضوں سے بھی جاملتا ہے۔ عوامی مسائل اور پریشانیوں میں بھی اضافہ ہو گا۔ یہ ایسی صورت حال ہے جس میں بالخصوص حکومت کو زیادہ سیاسی سوجھ بوجھ سے کام لینا اور مفاہمت کا ماحول پیدا کرناچاہیے جبکہ دھرنا دینے والوں کو بھی یہ ملحوظ رکھنا ہوگا کہ احتجاج کا جمہوری حق آئین کی پاسداری سے مشروط ہے۔ بدھ ہی کے روز سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف کی صحت کی سنگین صورت حال کےپیش نظر ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کیلئے وزارت داخلہ نے جو مشروط اجازت نامہ (میمورنڈم) جاری کیا، اس نےایک نئی بحث کو جنم دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک مقدمے میں سزایافتہ شخص اگر اپنے علاج کے لئے بیرون ملک جانے کی غرض سے عدالت سے ضمانت کی استدعا کرے اور عدالت اس کیلئے 8ہفتوں کی ضمانت منظور کر لے تو کیا عدالت کے حکم پر دی گئی شوریٹی کے بعد بھی انڈیمنٹی بانڈز دینے کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ میمورنڈم کے اجرأ سے قبل وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نےجو مشترکہ پریس کانفرنس کی اس میں میاں نواز شریف کی طبی کیفیت کی سنگینی کا اعتراف بھی کیا گیا، وزیراعظم سمیت ارکان کابینہ کی طرف سے اس خواہش کا اظہار بھی کیا گیا کہ نوازشریف جلد صحت یاب ہوکر وطن کی سیاست میں حصہ لیں تاہم سابق وزیر اعظم کی بیرون ملک روانگی کو اس بات سے مشروط کردیا گیا کہ نوازشریف یا شہباز شریف العزیزیہ کیس کی مالیت کے برابر رقم یعنی سات یا ساڑھے سات ارب روپے کے ضمانتی بانڈز جمع کرائیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس اجازت کا دورانیہ 4ہفتےہو گا جو قابل توسیع ہے۔ وزیرقانون کے مطابق یہ بانڈز 1987کے قانون کے بعض سیکشنز کے تحت مانگے گئے ہیں مگر وکلا کی ایک بڑی تعداد،جن میں پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے سینیٹرز بھی شامل ہیں،اس موقف سےمتفق نہیں۔ زیرک سیاستدان چوہدری شجاعت نے وزیراعظم عمران خان کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ نوازشریف کو علاج کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دینےکے اچھے فیصلے کو آلودہ کرنے والے مشورے قبول نہ کریں۔ نوازشریف کو ان کی انتہائی سنگین علالت میں علاج کی اجازت دینا انسانی اقدار کے حوالےسے اچھا فیصلہ ہےتاہم اس میں کسی ’’ڈیل‘‘ کے تاثر سے بچنا ضروری خیال کیا جارہا ہے تو بہترہوتا کہ وزیر اعظم خود عدالت سے فوری رہنمائی طلب کرتے۔ ملک کو درپیش سنگین چیلنج متقاضی ہیں اس بات کے کہ حکومت اور دیگر سیاسی قوتیں سخت رویوں سے اجتناب برتیں۔ زیادہ اچھا یہ ہو گا کہ حکومت پہل کرکے تمام سیاسی قوتوں کی اجتماعی دانش ملکی مفاد میں بروئے کار لانے کی تدبیر کرے۔

تازہ ترین