• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی آپریشن میں پولیس کی جانب سے پکڑے گئے ہزاروں ملزمان میں سے بیشتر پولیس کی روایتی کمزور تفتیش کے باعث رہا ہو چکے ہیں۔ یکے بعددیگرے تعینات ہونے والے آئی جی اور کراچی پولیس چیف یہ دعوے کرتے رہے کہ پولیس کے روایتی تفتیشی نظام کو جدید خطوط پر استوار کر دیا گیا ہے تاہم یہ دعوے اب تک حقیقت کا روپ نہ دھار سکے۔اس وقت کراچی کےشہری روزانہ اسٹریٹ کرائم کی درجنوں وارداتوں کا شکار ہیں۔ 

پولیس کی جانب سے متعدد ملزمان کو گرفتار بھی کیا گیا لیکن تفتیش میں مہارت نہ ہونے اور تفتیشی افسران کی جانب سےکمزور کیس بناکر ملزمان کو فائدہ دینے کے باعث کئیاسٹریٹ کریمنل اور دیگر جرائم میں ملوث مزمان رہا ہو چکے ہیں یا ضمانتوں پر جیل سے باہر ہیں۔رواں سال پولیس کی جانب سے 35ہزار سے زائد ملزمان کو گرفتار کیا گیا جن میں سے تقریباً 29ہزار کے قریب ملزمان ضمانتوں پر رہا ہو چکے ہیں۔

عدالت عالیہ کے حکم کے بعد سندھ میں گٹکے اور دیگر منشیات پرپابندی عائد ہے۔ رواں برس چالیس لاکھ کلو سے زائد گٹکا پکڑا گیا جبکہ2018میں 4 لاکھ 36 ہزارکلوسے زائد گٹکا پکڑا گیاتھا ، 2018 میں 750 گرام آئس پکڑی گئی جبکہ رواں برس 132 کلو سے زائد آئس پکڑی جاچکی ہے،2018میں220 کلو ہیروئن پکڑی گئی 2019 میں 1 ہزار 107 کلو سے زائد ہیروئن تحویل میں لی گئی ہے۔2018میں 86 ہزار 530 کلو چرس ضبط کی گئی 2019 میں 93 ہزار کلو سے زائد چرس پکڑی گئی ہے۔

کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ اسٹریٹ کرائمزمیں منشیات کے عادی افراد ملوث ہیں ۔ جب منشیات کے عادی افراد کو منشیات سمیت گرفتار کیا جاتا ہے تو ا س کےساتھ پکڑی گئی تمام منشیات کو لیب رپورٹ کے لیے بھیجنا پڑتا ہے لیکن کیمیکل ایگزامینیشن لیبارٹری غیر فعال ہونے کے باعث منشیات فروشی میں گرفتار ملزمان لیب رپورٹ نہ ہونے کے باعث چھوٹ جاتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ہمیں پکڑی گئی منشیات لاہور کیمیکل لیب بھیجنا پڑتی ہیں اور لاہور سے رپورٹ بنانے والے کیمیکل ایگزامنر وہاں سے ہر رپورٹ کے ساتھ کراچی آ کر عدالت میں پیش نہیں ہو سکتا جس جس کی وجہ سے ملزمان کو اس کا فائدہ پہنچتا ہے۔

گز شتہ دنوں" جنگ" سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کراچی پولیس چیف کا کہنا تھا کہ موبائل فون چھننے کے بعدصرف5فیصد شہری ایف آئی آر درج کرواتے ہیں جس کا فائدہ ملزمان کو ہوتا ہے۔ان کاا کہنا تھا کہ ایف آئی آر درج نہ ہونے کے باعث پولیس ہونے والے جرائم کی تفصیل نہیںبتاپاتی، اس لیے ہم نے اس کمی کو پورا کرنے کے لیئے ’’وکٹم سپورٹ سروس ‘‘کو فعال کیا ہے۔ایڈیشنل آئی جی کراچی کے مطابق جو شہری مختلف جرائم کا شکار ہوتے ہیں اس سروس کے ذریعے ان سے رابطہ کیا جا رہا ہے اور ان کی ہر ممکن مدد کی جا رہی ہے۔

پولیس کا تفتیشی نظام
کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن

انہوں نے بتایا کہ موبائل فون،موٹر سائیکل اور گاڑیوں سے محروم ہو جانے والے شہریوں کا ڈیٹا حاصل کر کے ان سے رابطہ کیا جارہا ہے اور متعلقہ ایس ایچ او ان سے خود رابطہ کر کے ان کے مقدمات درج کررہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ گذشتہ ایک ماہ کے دوران موبائل فون سے محروم ہو جانے والے متعدد شہریوں سے رابطہ کر کے شہر کے مختلف تھانوں میں ان کی ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔،انہوں نے بتایا کہ سی پی ایل سی کا ڈیٹا بھی اس سلسلے میں حاصل کیا جارہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ وکٹم سپورٹ سروس میں مزید اہلکاروں اور افسران کو تعینات کیا جا رہا ہے تاکہ جرائم کا شکار ہونے والے شہریوں سے فوری رابطہ ممکن بنایا جا سکے۔

غلام نبی میمن نے بتایا کہ تھانے میں تین ڈی این اے ایکسپرٹس تعینات کیے جا رہے ہیں۔پہلے ایک ڈی این اے ٹیسٹ میں22ہزار روپے لگتے تھےتاہم اب ہمارے ایکسپرٹس یہ کام کریں گے اور اس کے لیے انہیں کراچی یونیورسٹی کے تعاون سے تربیت دی جا رہی ہے۔،اسٹریٹ کرائم میں منشیات کے عادی نوجوان ملوث ہیں ،ناکہ بندی پوائنٹس پر مینوئل کے بجائے آٹومیٹک سسٹم کے ذریعے گاڑیوں کی سرچنگ کی جائے گی۔ پہلی بار تھانوں میں ایس ایچ اوز کی تعیناتی کے لیئے ٹیسٹ اور انٹرویوز لیے گئے ہیں اور جو افسران اس ٹیسٹ میں کامیاب ہوئے میرٹ کی بنیاد پر صرف انہیں تعینات کیا گیا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ جب افسر میرٹ پر لگے گا تو وہ تھانہ بھی اچھا چلائے گا۔پہلی بار پولیس افسران اور اہلکاروں کے خلاف مقدمات درج کر کے انہیں گرفتار اور نوکری سے فارغ کیا گیاہے۔انہوں نے بتایا کہ 3ماڈل تھانے بنائے گئے ہیں۔ماڈل تھانوں کی عمارتوں میں دس مختلف حصے ہوں گے۔ان میں ٓاپریشن ٹیم، تفتیشی ٹیم، فارنسک ٹیم، آئی ٹی ٹیم، انٹروگیشن روم الگ الگ بنائے جائیں گے۔،ماڈل تھانوں میں کانفرنس روم بھی بنائے جائیں گے،جب کہ وہاں کمپیوٹر آپریٹرز، ڈی این اے ایکسپرٹ، بائیو میٹرک ایکسپرٹ، آئی ٹی اور سی ڈی آر ایکسپرٹ بھی تعینات ہوںگے۔

ماڈل تھانوں میں اکاؤنٹننٹنٹ اور خواتین کی نفری بھی تعینات کی جائے گی ۔بیشتر نفری قریبی علاقوں میں رہائش پذیر اہلکاروں پرمشتمل ہوگی۔انہوں نے بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ کے حکم کے تحت گٹکا اور مین پوری فروشوں پر پی پی سی کی دفعہ337-jلگائی جا رہی ہے جوناقابل ضمانت ہے اور اس کی سزا 10سال قید ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے تمام ایس ایچ اوز اور افسران کو ہدایت کی ہے کہ اگر کوئی شہری کسی واقعہ کی رپورٹ درج نہیں کرواتا تو پولیس خوداس واقعہ کی رپورٹ درج کرے ۔اسٹریٹ کرائم کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پران کا کہنا تھا کہ پولیس، اسٹریٹ کرائم پر کام کر رہی ہے اور کئی ملزمان بھی گرفتار کیےگئے ہیں۔انہوں نے شہریوں سے درخواست کی کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے واقعہ کی رپورٹ لازمی درج کروائیں۔

کراچی پولیس چیف کے دعوے ایک طرف لیکن حقیقت یہ ہے کہ پولیس کے تفتیشی نظام میں اب بھی کئی خامیاں ہیں، جن کا فائدہ براہ راست ملزمان کو ہوتا ہے، جب تک پولیس کے تفتیشی نظام کو جدید خطوط پر استوار نہیں کیا جائے گا اس وقت تک ملزمان کو سزا دینے کے دعوے کاغذوں تک محدود رہیں گے۔

تازہ ترین
تازہ ترین