• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کس کس کو روئیں۔ کس کس کی جفا کو کوسیں اور کس کس کے لیے دُعاگو ہوں اور اُن کے لیے بھی جن کے دامن کو حریفانہ کھینچتے ایک عمر گزری۔ پنجاب سے ملک کے تین بار منتخب زیرِ عتاب وزیراعظم میاں نواز شریف آخری دموں پر ہیں! لیکن محبتوں کی رگِ ظلمت کو ابھی بھی قرار نہیں۔ 

شاید چالیس برس پہلے قائم کی گئی مثالِ عبرت (بھٹو کی پھانسی) ماند پڑ چلی تھی اور اب ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی دہائی کی تذلیل ختم ہونے کو نہیں۔ بھلا ’’ڈاکوئوں اور لٹیروں‘‘ سے رعایت کیسی، جیسے ہم کسی اشتراکی جنت میں رہ رہے ہوں اور اقتدار پہ مائو یا لینن براجمان ہوں۔ 

میاں صاحب کی بیماری ایسی کہ تشخیص نہیں، اوپر سے ایسا اسپتال نہ بنانے کے طعنے جہاں ہر عارضے کا علاج میسر (جو شاید ابھی کہیں نہیں) اور ایسے ملک میں جہاں لوگوں کی بھاری اکثریت سر درد کی گولی سے بھی محروم۔ 

اُس پر سب کے ساتھ یکساں سلوک کا منافقانہ مضحکہ۔ وہ جو دو انتہائوں کے پاکستان سے فیض پاکر اور امیر و غریب کی خلیج بڑھا کر تنومند ہوئے، وہ بھی جیلوں میں قید ہزار ہا بدنصیبوں پہ ٹسوے بہاتے نظر آئے جنہیں کبھی اُن کی داد رسی کی توفیق نہیں ہوئی اور صرف اس لیے کہ سب سے بڑا سیاسی حریف ایڑیاں رگڑتا مر جائے۔ ’’رگِ انسانیت‘‘ پھڑکی بھی تو یوں کہ ناکردہ گناہوں کا تاوان مانگ کر۔ 

ڈاکٹروں کے سرکاری بورڈ نے مرض لاتشخیص قرار دے کر بیرونِ ملک علاج کا پروانہ دے دیا اور عدالتوں سے سزائیں معطل اور ضمانتیں ہو بھی گئیں تو جنرل ضیاء الحق کے کالے قانون کا سہارا لے کر ایسی شرط عائد کی گئی کہ تحریکِ ’’انصاف‘‘ کے بیانیہ کی تشفی کے لیے ’’لوٹا ہوا مال‘‘ نکلوا کر جانے دینے کی سیاسی خودکُشی کی پیشکش پہ خوب بغلیں بجائی گئیں۔ 

اور اگر سیاسی خودکُشی قبول نہیں تو ’’جان سے دمڑی پیاری‘‘ کے طعنے بھی۔ لیکن مجال ہے کہ مسلم لیگیوں کی رگِ حُرمت و حریت پھڑکتی اور در و دیوار دُھل جاتے۔ بات لڈوئوں سے دُعائوں پہ ختم ہوکر عدالت کے کٹہرے میں پہنچی جہاں حکومت اپنی ہٹ دھرمی پہ ڈٹی نظر آئی۔ جان چھوٹی بھی تو واپسی کا حلف نامہ جمع کرا کر۔

وہ تو خیر سے ہمارے مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد میں ایک شریفانہ شرعی دھرنے میں کیا براجمان ہوئے کہ کہیں برف پگھلی اور آمرانہ شکنجے میں کہیں ڈھیل کے امکان پیدا ہوئے۔ 

ڈاکٹروں کی سُنی گئی اور ناحق بیوپاریوں کی بھی اور سیاسی منظر پہ اک اور سازشی کروٹ کے امکاں روشن ہوئے (؟)۔ یہ مولانا ہی جانتے ہیں کہ آخر وہ نومبر میں دھرنا دینے پہ کیوں مُصر تھے اور گجرات کے چوہدریوں نے اُنہیں کیا ’’امانت‘‘ سونپی جس کی بھنک پاکر ہمارے مضطرب دوست سلیم صافی ہاتھ ملتے رہ گئے۔ 

شروع ہی میں چہ میگوئیاں تھیں کہ مولانا ایسے ہی بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے نہیں آئے تھے اور علامات تو کچھ کچھ نظر آنے لگی ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین جیسے جغادری بھی کہنے پہ مجبور ہو گئے ہیں کہ آئندہ تین سے چھ ماہ میں کوئی وزیراعظم بننے پہ بھی راضی نہیں ہوگا۔ 

نواز شریف کو کچھ ہو گیا تو منہ پہ لگا داغ نہ دھل پائے گا اور حکومت ہے مہنگائی کے طوفان اور بیروزگاروں کے غضب سے نپٹنے پہ توجہ دے۔ اتحادی ہیں کہ اُنہیں زبان لگ گئی ہے۔ مسلم لیگ قاف ہو یا ایم کیو ایم یا پھر بلوچستان کے اتحادی سبھی عدم اطمینان کی بولی بول رہے ہیں۔ 

حکومت نے قومی اسمبلی میں درجن کے قریب آرڈیننس واپس لے کر اپنے ڈپٹی اسپیکر کو عدم اعتماد سے بچایا ہے۔ حمزہ شہباز کی پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کا عندیہ اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے دے دیا ہے۔ پنجاب اور مرکز کی جو حکومتیں درجن بھر ووٹوں کی مرہونِ منت ہیں، وہ اب گئیں کہ اب گئیں۔ مولانا کے مارچ نے اور کچھ کیا ہو یا نہ، یہ ضرور کیا ہے کہ دو سَروں والی حکمرانی میں دراڑ ڈال دی ہے۔ 

اب دیکھتے ہیں کہ اقتدار کی جوڑی میں کیا ٹھنتی ہے اور اس کے بطن سے کس کے مقدر میں کیا لکھا جاتا ہے۔ یہ جو مینڈیٹ کی چوری کے حوالے سے احتجاج کی ٹائمنگ پہ اختلاف تھا، ساری محلاتی گتھیوں کا راز اُسی میں چھپا تھا۔ مولانا فضل چلے تو تھے لنکا ڈھانے، لیکن ڈی چوک پہ جانے کے بجائے واپس پلٹ گئے۔ لگتا ہے کہ اُن کا عمران خان کے استعفیٰ کے لیے دو روز کا الٹی میٹم دیا ہی اس لیے گیا تھا کہ اُن سے بات چیت کی راہ نکلے جن سے مکالمہ منقطع ہو چکا تھا۔ ایسے ہی ترجمان کا دلپذیر بیان تو نہیں آ گیا تھا۔ 

باقی کام اقتدار کے شطرنج کے ماہر گجراتی چوہدریوں نے کر دکھایا جو ظاہر ہے وزیراعظم کو کیوں بھانا تھا اور حکومت کی مذاکراتی ٹیم کہیں سینگ چھپا کر بیٹھ رہی۔

اب میاں صاحب کا باہر جانا ٹھہر گیا ہے۔ اب وہ کب صحتیاب ہو کر لوٹتے ہیں، اللہ جانے۔ سیاست کا جو کانٹا تھا وہ نکل گیا، اب آپ میاں شہباز شریف کی آنیاں جانیاں دیکھیے۔ جب تک بڑے میاں صاحبِ فراش رہیں گے، بی بی مریم کو سیاست سے سروکار نہیں رہے گا۔ یوں ایک اور اُلجھن بھی دُور ہوئی۔ 

اور مسلم لیگ نون کسی بھی تنخواہ پہ کام کرنے کو تیار ہوگی۔ ایسے میں شاید انتہائی بیمار آصف زرداری کو گوشۂ قفس میں کچھ آرام میسر آ جائے اور ہمارے نوجوان بلاول بھٹو زرداری اگلے برس انتخابات کی اُمید نہ لگائیں تو کیا کریں۔ آگے جو بساط بچھنے والی ہے، اُس میں جانے کون کدھر جائے۔ 

عمران خان کا جانا شاید مہنگائی و بیروزگاری کے طوفان کی پیش بندی ہو لیکن سیاسی اعتبار سے یہ یقیناً اچھا شگون نہیں ہے۔ ’’تبدیلی‘‘ کا مزہ اگر کچھ اور چوکھا ہو جاتا اور عوام کی منشا سڑکوں پہ نظر آ جاتی تو کسی حقیقی عوامی تبدیلی کی راہ دکھائی پڑتی۔

 لیکن ’’ووٹ کو عزت دو‘‘، آس کی ابھی تشفی ہوتی نظر نہیں آتی۔ پھر سے محلاتی سازشوں کا زور بڑھنے والا ہے اور سیاسی اشرافیہ اپنی اپنی بازی لگانے پہ تیار ہو چکی ہے۔ اِس نئی اُبھرتی گٹھ بندی میں کون صاف نکل کر عوام کے پاس جاتا ہے یا پھر چھوٹی موٹی ڈھیل کی ریوڑیوں پہ گزارا کرتا ہے، جلد معلوم پڑ جائے گا۔ 

پاکستان کو درپیش بڑے چیلنجوں پہ مباحثے اور اُن کے دیرپا حل کی ضرورت ہے۔ کیا کبھی سبھی اسٹیک ہولڈرز میں کھلا مکالمہ نہیں ہو سکتا اور یہ آئینی حکمرانی کے دائرے میں سبھی کے آئینی کردار کا تعین نہیں ہو سکتا اور عوام کی دبی منشائوں کی تسکین کا مستقل بندوبست کر کے ریاست اور عوام کے مابین عمرانی معاہدے کی تجدیدِ نو نہیں ہو سکتی؟؟؟ یہ تو دیکھ چکے کہ سیاست کا دل نہیں، لیکن دل کی سیاست جس کا مرکز عوام اور صرف عوام ہوں کی تلاش جاری رکھنے میں کیا حرج ہے۔ دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک!

تازہ ترین