• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ محض قرین قیاس یاممکن ہی نہیں یقینی بھی ہوسکتا ہے کہ صحرائے اعظم کے کسی نخلستان کی تتلی کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ کے ردعمل سے قطبین کا کوئی آئس برگ یا ہمالیہ کا کوئی گلیشیئر ٹوٹ جائے اورہزاروں بستیاں ”ایوالانچ“ کی زد میں آجائیں اور ثبوت اس کا یہ بھی ہے کہ ادارہ ٴ اقوام متحدہ نے 21فروری کو عالمی سطح پر مادری زبان کے دن کے طورپر منانے کا اعلان کیا ہے اور لاہور سمیت پاکستان کے تمام بڑے شہروں کے دانشوروں، ادیبوں اور صحافیوں نے محسوس کیاہے کہ ان کے وطن عزیز کے دو بڑے صوبوںآ بادی کے لحاظ سے پنجاب اور رقبے کے حساب سے بلوچستان کے بدنصیب بچوں کو ان کی مادری زبان میں ابتدائی تعلیم دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی اور اس زیادتی کا ازالہ بھی بہت ضروری اور لازمی ہے۔
بلاشبہ مادری زبان میں ابتدائی تعلیم کی فراہمی ایک بنیادی ضرورت ہے مگر اس موضوع پراظہار خیال کو ”مادری زبان“ سے ادارہ اقوام متحدہ تک لے جانے کی ضرورت ہوگی۔ کون نہیں جانتا ہوگا کہ مادری زبان وہ ذریعہ اظہا ر ہے جو بولنے والے جانور (حیوان ناطق) کے طور پر انسانی ماؤں کے دودھ کے ساتھ ان کے بچوں کی رگوں میں جاتا ہے اور ان کے اندر شعور اور آگاہی کے نور کو بچھاتا اور پھیلاتا ہے، سمجھ بوجھ کی بنیاد رکھتا ہے۔
کچھ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ دودھ پیتے بچے کے سیکھنے اور سمجھنے کی رفتار اورآگاہی کی گنجائش کس قدر ہوتی ہے مگر عمرانی علوم کے ماہرین کے خیال میں ماں کی گود میں آنکھیں کھولنے کے ساتھ ہی بچوں کی آگاہی، شعور اورتعلیم کا تیزترین عمل اور مرحلہ شروع ہو جاتا ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق نوزائدہ بچوں کے علم کی بھوک اور پیاس اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ وہ بقول کسے روزانہ ایک انسائیکلو پیڈیا ہضم کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ بھی کرسکتے ہیں۔
بتایا جاتا ہے اور قرین قیاس بھی ہے کہ انسان کے بچے کے شعور کی تعلیم قدرت اورفطرت کی رہنمائی کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے۔ بچے کی اپنی ماں سے ”گفتگو“ زبان کے استعمال سے بہت پہلے شروع ہو جاتی ہے۔ جب وہ اپنی ماں کی محبت کی خوشبو سونگھنے لگتا ہے اور بولنے سے پہلے ماں کے ہونٹوں کی زبان کو بھی سمجھنے لگتا ہے۔ بچہ ماں کے اشاروں پرمسکراتا اور ہنستاہے اور اپنی زندگی کی ابتدائی ضرورتوں تک پہنچنے کی قدرت بھی حاصل کرلیتا ہے۔ یہی اس کی تعلیم و تربیت کا آغاز ہوتاہے جس میں آوازوں اورزبان سے زیادہ جسمانی رابطے اورلمس کے ساتھ پیار کی خوشبواپنا کام کر رہی ہوتی ہے۔ اس جسمانی لمس اورپیار کی خوشبو کواگر آواز اور زبان کی موسیقی بھی مل جائے توبچے کی ایک بہت بڑی ضرورت پوری ہو جاتی ہے جوخوراک جتنی اہمیت رکھتی ہے۔بہت کم لوگ یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ماؤں اور ان کے نوزائیدہ بچوں کے درمیان باتوں اور گفتگو کی کوئی گرائمر نہیں ہوتی۔ اگرچہ الفاظ بھی نہیں ہوتے بے معنی آوازیں اور ”غوں غاں“ کے اندر بھی مطلب اور معانی ہوتے ہیں جوماں سمجھ لیتی اور بچے کی سمجھ میں بھی آ جاتی ہیں اورمادری زبان کی سب سے بڑی اوراتنی ہی زیادہ پراسرار یہی خوبی، قوت اورطاقت ہے جو کسی اور زبان کو نصیب نہیں ہوسکتی۔ جس طرح کوئی بچہ اپنی ماں کی گودمیں اپنے آپ کو سب سے زیادہ محفوظ سمجھتا ہے ویسے ہی شعور، علم اور سوچ کو بھی حفاظت اور تحفظ کی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے جتنی کسی زندگی کو ہوسکتی ہے۔ہمارے ایک بہت ہی پیارے دوست اورافسانہ نگار منیراحمد شیخ مرحوم اپنے ایک بھانجے فاروق کا ذکر کیا کرتے تھے جس کو سب پیار سے ”فوقی“ کہا کرتے تھے۔ منیربتاتے تھے کہ کمسن فوقی کراچی سے آئی ہوئی ایک پیاری سی بچی کے ساتھ چھت پر دھوپ میں کھیل رہا تھا مگر یوں لگتا تھا جیسے وہ کھیل کے اندر پوری طرح شامل نہ ہو۔ منیر نے اسے بلایا اورپوچھا عظمیٰ کیا کہتی ہے؟ فوقی نے جواب دیا”اردو بولتی ہے“ منیرنے پوچھا ”تم کیا بولتے ہو؟“ فوقی بولا ”اسی تے گلاں کرنے آں“ یعنی ”ہم تو باتیں کرتے ہیں“ زبان بولنے اورباتیں کرنے میں جو فرق ہے وہ دوسری زبانوں اور مادری زبان میں ہے۔زبان بولنے کو باتیں کرنے میں ویسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ جیسے ”’لیگ آف نیشنز“ کو ”ادارہ اقوام متحدہ“ میں تبدیل کیاگیا تھا اور یہ سمجھ لیاگیا ہے کہ مادری زبان کا دن منانے سے مادری زبانوں کے تمام مسئلے حل ہو جائیں گے۔ ضرورت پہلے اقوام عالم کو متحد کرنے کی ہوتی ہے اورپھر ادارے وجودمیں آتے ہیں۔ قدیم امریکہ کے ریڈانڈین قبیلوں اور آسٹریلیا کے ایروجینز کی دوہزار سے زیادہ مادری زبانوں کوموت کے گھاٹ اتارنے والے زبانیں تو بہت چلا سکتے ہیں مگرباتیں نہیں کرسکتے۔ باتوں کے لئے مادری زبان کی ضرورت ہوتی ہے اور مادری زبانوں کو ماؤں جیسی محبت، پیار اور مامتا کی ضرورت ہوتی ہے جو محض دن منانے سے پوری نہیں ہوسکتی۔
تازہ ترین