ندیم اشفاق
پاکستان ٹیلی ویژن کا ماضی بے حد تاب ناک رہا ہے۔ ٹیلی ویژن سے اعلیٰ ذہین ، محنتی اور اپنے کام سے بے حد سنجیدہ افراد منسلک رہے، جو ہر پہلو پر نظر رکھتے ہوئے معیاری پروڈکشن تیار کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ ماضی کے ڈرامے نہ صرف پاکستان بلکہ غیر ممالک میں بھی بے حد پسند کیے جاتے تھے ۔ہمارے ڈراموں کے معیار کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں ممبئی کے اداکاری کے انسٹی ٹیوٹشنز میں دکھا کر نئے فن کاروں کو تربیت دی جاتی ہے، جب پی ٹی وی کراچی کا قیام عمل میں آیا، تو ڈرامے نے ایک نیا رُخ اختیار کیا۔
فاطمہ ثریا بجیا ،حسینہ معین سمیت دیگر ڈراما نگاروں نے خاندانی ماحول میں گھریلو موضوعات پر سیریلز لکھ کر ایک نیا ٹرنیڈ دیا۔ ادب، تہذیب رشتوں کا احترام ہلکے پھلکے طنز و مزاح کے ساتھ نوجوان نسل کی تربیت کی گئی، بلکہ مشرقی رسم و رواج کو بھی موثر انداز میں پیش کیا گیا۔ ان ڈراموں کی کام یابی میں جہاں تحریر نگاروں اور پروڈیوسرز کی کاوشیں شامل تھیں، وہاں ان کے اداکاروں کا بھی خاصا حصہ تھا۔ سینئراداکار شکیل بھی اس کارواں میں شامل تھے۔ 70ء اور80ء کی دہائی میں اپنی خُوب صورت اور جان دار اداکاری کی بدولت انہوں نے ناظرین کے دلوں پرراج کیا۔
ٹیلی ویژن پر شوخ اور سنجیدہ کرداروں کے لحاظ سے شکیل ایک مستند حوالہ ہے، جن کی بے ساختہ کردار نگاری نے ٹی وی ڈراموں کو سپرہٹ بنانےمیں اہم کردار ادا کیا ۔ ماضی کی مقبول ڈراما سیریلز شہ زوری، انکل عرفی، انتظارفرمائیے، ان کہی، زیر زبر پیش، افشاں، انا، عروسہ، آنگن ٹیڑھا اور لاتعداد ڈرامے ایسے ہیں، جنہیں شکیل نے اپنی لاجواب اداکاری سے امر کر دیا۔
شکیل پاکستان کے واحد فن کار ہیں، جو ٹیلی ویژن کے قیام سے قبل ہی ٹی وی فن کار کااعزاز حاصل کر چکے تھے، یہ اس وقت کی بات ہے، جب اکتوبر 1962ء میں ایک بین الاقوامی نمائش کے موقع پر نجی کمپنی نے ایک تجرباتی اسٹیشن قائم کر کے کراچی کے مختلف مقامات پر 200ٹی وی سیٹ نصب کیے تھے،جس میں متعدد پروگرامز کے علاوہ اداکار شکیل کا اسٹیج ڈراما بھی لائیو دکھایا جاتا تھا۔
اداکار شکیل کا اصل نام یوسف کمال ہے، وہ 29مئی 1943ء کو بھارت کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ کا تعلق بھوپال کے ایک نواب خاندان سے تھا، جب کہ والد لکھنو کے معروف بیرسٹر تھے۔ ابتدائی تعلیم ایک انگریزی مشنری اسکول میں حاصل کی۔1952ء میں اپنے والد کے ساتھ پاکستان منتقل ہو گئے، جب آٹھویں کلاس میں تھے، تو ریڈیو پروگرامزمیں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔
ریڈیو پر انہیں مختلف استادوں سے سیکھنے کا موقع ملا۔ گریجویشن کے بعد انہوں نے ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی میں ملازمت کی، اس دوران اسٹیج کے معروف ہدایت کار علی احمد کے مختلف اسٹریٹ تھیٹر اور تھیوسیفکل ہال کے ڈراموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اپنی مدد آپ کے تحت اصلاحی ڈرامے پیش کیے جاتے تھے۔ شکیل نے اسٹیج پلے ’’اس گلی نہ جائیں‘‘ نامی کھیل میں سولو پرفارمنس کا مظاہرہ کر کے ناقدین سے زبردست داد وصول کی۔
تھیٹر پر شکیل کی پرفارمنس سے متاثر ہو کر معروف فلم ساز ایس ایم یوسف نے انہیں فلم میں کام کرنے کی آفر کی۔بالآخر شکیل کو فلم کے لیے راضی کر لیا ۔ ان کی پہلی فلم ’’ہونہار‘‘ 25 ؍مارچ 1966ء کو ریلیز ہوئی، جس میں وہ ممتاز اداکار وحید مراد کے چھوٹے بھائی بنے تھے۔ اس زمانے میں اداکار یوسف خان اور کمال فلم انڈسٹری میں موجود تھے، یوں معروف فلم ساز و نغمہ نگار فیاض ہاشمی اور ایس ایم یوسف نے بڑی سوچ بچار کے بعد ان کا نام شکیل تجویز کیا۔ بدقسمتی سے فلم ناکام ہوگئی۔فلموں میں بہت زیادہ کام یابی حاصل نہ کرنے کے بعد وہ ٹیلی ویژن پرچھا گئے۔
انکل عرفی وہ مشہورِ زمانہ سیریل تھی ، جس میں انہوں نے نوجوانی میں نسبتاً اولڈ کریکٹر اس مہارت سے ادا کیا کہ ناظرین حیران رہ گئے، اس کے بعد وہ ٹیلی ویژن کے مصروف فن کار بن گئے۔ٹیلی ویژن اسکرین پر شکیل کا پہلا ڈراما ’’نیا راستہ‘‘ تھا، بعد ازاں ڈراما سیریل ’’شہ زوری‘‘ میں نیلوفرعلیم کے ساتھ ان کی جوڑی پسند کی گئی۔ ’’انکل عرفی‘‘ ان کے کیریئر کی یاد گار سیریل تھی، جو آج تک ان کے تعارف کا موثر حوالہ ہے۔
شاہد کاظمی کی تحریر کردہ سیریل ’’آندھی‘‘ میں ان کا منفی کردار بھی منفرد نوعیت کا حامل تھا۔ انور مقصود کی خوب صورت سیریل ’’آنگن ٹیڑھا‘‘ کے محبوب بھائی، قاسم جلالی کی سیریل ’’اساوری‘‘ کا سازنذہ نواز ڈراما سیریل ’’شاہین‘‘ میں آخری مسلمان بادشاہ ابو عبداللہ، سیریل سائے کا نابینا ڈاکٹر، الغرض شکیل نے ہر قسم کے کردار میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ کر کے ٹیلی ویژن کے ور اسٹائل اور مستند فن کاروں کی صف میں شامل کیا۔
شکیل کی دیگر ڈراما سیریلز میں آندھی 1990ء ،سسی پنوں 1991ء ،کہر 1991ء، عروسہ 1992ء، سمندر جاگ رہا ہے 1997 ء،دھوپ میں ساون اور تم بھی وہی ہم بھی وہی1998ء تمنا، تم سے مل کر، دوسری دنیا، ہے گھات میں نگاہ ستم گر لگی ہوئی اور کینوس 1999ء رسم آشنائی 2000ء دھول، اور دی کیسل ایک امید 2001ء دوسری عورت اور جب جب دل ملے 2002ء اڑان، عشق کی انتہا، دل منتظر، امرائو جان ادا کے علاوہ انفرادی کھیل بیس کیمپ،جنون ، ایسا دوست ایسا دشمن، سفر کہانی، لوکو شیڈ، فصل بہار، نوید حیات، پہنچی وہیں پہ خاک، قفس، احسن اور چی چو، چار چنار، ہم تم عید، دیوار، لبیک لبیک، عید گھرانہ، طوطا کہانی، سرپرائز، سمیت ان گنت یاد گار ڈرامے شامل ہیں۔
اداکار شکیل نے بین الاقوامی فلم ’’جناح ‘‘ میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا کردار خُوب صورتی سے ادا کیا۔ شکیل کی صاحب زادی حرا کمال ماضی میں جیو نیوز سے منسلک رہیں۔ انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام ماں تجھے سلام پروڈیوس کرنے کے علاوہ اس کی اینکر کے فرائض بھی ادا کیے۔ ان دونوں کو اداکاری کا قطعی شوق نہیں۔ تاہم مصطفیٰ کمال نے 9سال کی عمر میں ڈراما سیریل ’’اساوری‘‘ میں شکیل کے پوتے اور بیٹی حرا کمال نے ڈراما سیریل ’’انا‘‘ میں انا کے بچپن کا رول ادا کیا تھا۔
یہ امر بھی دل چسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ شکیل ایک بہترین ڈریس ڈیزائنر بھی رہے ہیں۔ انہوں نے سری لنکا ، جدہ اور دبئی کے دیگر ممالک میں فیشن شوز بھی منعقد کیے۔ ان کے ڈیزائن کیے ہوئے کپڑوں کی بھارت سمیت کئی ممالک میں مانگ رہی۔ ان کا کراچی کے زمزمہ میں ذاتی بوتیک کے علاوہ لندن میں بھی آئوٹ لیٹ تھا۔
اداکار شکیل کو ان کی فنی صلاحیتوں کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس ،لائف اچیومنٹ ایوارڈ اور ستارہ امتیاز مل چکا ہے، جب کہ سابق صدر پاکستان ممنون حسین نے خصوصی طور پر ’’اعتراف فن ایوارڈ‘‘ سے نوازا۔ علاو ہ ازیں دیگر ثقافتی اداروں کی جانب سے لاتعداد ایوارڈ حاصل کیے۔