• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گل و خار … سیمسن جاوید
پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمہ اور امن کی بحالی کیلئے انگنت معصوم اور بے گناہ جانوں کا نذرانہ دینا پڑا۔ شہیدوں کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے آرمی پبلک سکول میں طالبان دہشت گردوں کی سب سے بڑی انسانیت سوز، وحشت ناک اور اندوہناک خونریزی ہوئی جس میں معصوم کمسن طلبہ سمیت141 افراد کی ہلاکت ہوئی جسکے بعد پاک آرمی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور وہ وطن دشمن دہشت گردوں کیخلاف سیسہ پلائی دیوار بن گئی اور پھر سول سوسائٹی بھی میدان میں نکل آئی، حب الوطنی اور امن کے جذبے سے سرشار لبرل اور سیکولرجیالوں نے محسوس کیا کہ طبقاتی تفریق،نفرت، تعصب، تشدد اور انتہاپسندی ملک میں بدامنی، بے چینی اور خوف و ہراس پیدا کرنے کے موجب بنتے ہیں۔ نفرت، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے کھیل نے ہزاروں معصوم شہریوں کو لقمہ اجل بنالیا ہے۔ وہ اس ریاستی دہشت گردی، مذہبی انتہاپسندی اور مذہب کے نام پر ہونیوالی سیاست کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ رواداری تحریک جو آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کے بعد 2015 میں ایک ایسی سماجی تحریک کے طور پر ابھر کر سامنے آئی جس میں تمام مذاہب، کلچر اور قوموں کے لوگ اکٹھے ہو کر مذہبی انتہا پسندی ،عدم برداشت، تعصبات اور مذہب کے نام پر مارا ماری کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ آج یہ پاکستان کے چاروں صوبوں پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے علاوہ گلگت، بلتستان اور فاٹا میں بھی معاشرے میں رواداری کے کلچر کو فروغ دینے میں کوشاں ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ رواداری تحریک میں مختلف مذاہب ،مکاتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہر طبقہ کے لوگ شامل ہیں اور رضا کارانہ طور پر اس رواداری تحریک کے پلیٹ فارم سے معاشرے میں مذہبی ہم آہنگی اور روا داری کے فروغ کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کرنے میں کوشاں ہیں۔ رواداری تحریک کا بیانیہ سیکولر ہے جو تمام مذاہب کے احترام کا داعی ہے تاہم یہ تحریک مذہب کو ریاست اور سیاست سے الگ رکھنے کی قائل اور حامی ہے۔ اس وقت ہزاروں کی تعداد میں مختلف مذاہب اور مسالک
کے لوگ اس رواداری تحریک کے ممبر ہیں اور ایک دوسرے کی خوشیوں میں شامل ہو کر یکجہتی اور انسانیت کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے رواداری تحریک کے بانی اور چیئرمین سیمسن سلامت لندن تشریف لائے۔ انہوں نے پاکستان میں رواداری تحریک کی کامیابی اور کرسچن کمیونٹی کی پست حالی اور مسائل پر بات چیت کی۔ انہوں نے کہا کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کو ایک جمہوری ریاست بنانا چاہتے تھے۔ جس میں انسانی بنیاد پر تفریق روا نہ رکھی جائے۔ ہر عقیدے ا ورہر مذہب کے لوگ آزادی سے اپنی اپنی عبادت گاہوں میں اپنے رب کی عبادت کریں اور آزادی سے اپنی مذہبی رسومات ادا کر سکیں۔ ریاستی امور اور مذہب کو الگ الگ رکھا جائے۔ایڈورڈز کالج پشاورکے قومی تحویل کے معاملے میں رواداری تحریک کا موقف یہ ہے کہ اقلیتی سلیکٹڈ ممبران کو اسمبلیوں کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہئے تھا مگر انکی بے بسی کھل کر سامنے آ گئی۔ انہیں کمیونٹی کے مفادات عزیز نہیں بلکہ ذاتی مفادات عزیز ہیں، رواداری تحریک نے آسیہ بی بی، ساجد مسیح اور نمرتا کیلئے بھرپور آواز اٹھائی،جہاں بھی ناانصافی،ظلم اور امتیازی سلوک و قوانین کا معاملہ ہوا ہے وہیں رواداری تحرک نے حق کا علم بلند کیاہے۔ سینٹری ورکرکے پیشے کو پاکستانی معاشرے میں کم تر پیشہ سمجھا جاتا ہے۔ تعلیمی سہولیات اور روزگار کی عدم دستیابی کی وجہ سے بیشترمسیحی لوگ یہی کام کرنے پر مجبور ہیں۔ پیٹ پالنے کی خاطر گٹر کی صفائی کیلئے خطرناک اور جان لیوا گٹر میں اتر جاتے ہیں اورزہریلی گیس سے دم گھٹنے کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔رواداری تحریک نے ہمیشہ ان کیلئے آواز اٹھائی ہے۔ جہاں تک جبراً تبدیلیِ مذہب و نکاح کی بات ہے تو ہم اسکی سخت مذمت کرتے ہیں۔ اگر ہر سیاسی پارٹی اپنے منشور میں صرف یہ اضافہ کرے کہ اس نے اپنے ٹکٹ پر اقلیتی نمائندے کو منتخب کروانا ہے تو اقلیتوں کی حقیقی نمائندگی سامنے آئے گی اور ملک میں مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کو بھی فروغ ملے گا۔آج اقلیتوں کے پرسنل لاء کا ایشو ہے۔میرج ایکٹ اور طلاق کا ایشو ہے جو ہم کمیونٹی کو مل بیٹھ کر خود حل کرنا ہے نا کہ یہ حکومت کا کام ہے۔ آج ہزاروں روشن خیال رواداری تحریک میں شامل مسلمان پاکستان کو رواداری کا گہوارہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی معاشی صورتحال کا اندازہ اس سادگی سے لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں ٹماٹر پیاز کی خریداری عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہو چکی ہے۔کروڑوں لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں یعنی انکو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے۔
تازہ ترین