• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ ماہ قبل پاکستانی عوام ہیگ میں قائم عالمی عدالتِ انصاف سے اُس وقت واقف ہوئے جب بھارتی دہشت گرد جاسوس کلبھوشن یادیو کیس میں پاکستان کے حق میں تاریخی فیصلہ سنایا گیا۔ اِس لئے جب میں گزشتہ دنوں میک اے وش فائونڈیشن انٹرنیشنل کی بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ میں شرکت کیلئے نیدرلینڈ گیا تو میری بڑی خواہش تھی کہ اس ملک کے اہم شہر ہیگ میں واقع عالمی عدالتِ انصاف کا وزٹ کروں۔ 

میں نے جب اس خواہش کا اظہار ہیگ میں کئی عشرے سے مقیم اپنے قریبی دوست شاہین سید جو عالمی عدالت انصاف سے منسلک رہے ہیں، سے کیا تو یہ طے پایا کہ میک اے وش کی بورڈ میٹنگ کے بعد وہ مجھے لینے نیدرلینڈ کے شہر ہل ورسم (Hilversum) آئیں گے۔ اس طرح وہ اپنے صاحبزادے کے ہمراہ مجھے لینے آئے۔ 

ایک گھنٹے کی خوبصورت ڈرائیو کے بعد جب ساحلی شہر ہیگ پہنچا تو اس کی خوبصورتی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ میں اس سے قبل بھی مختصر دورے پر ہیگ آچکا ہوں مگر اس بارشہر کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ 

حالانکہ اقوامِ متحدہ کا ہیڈ کوارٹر نیویارک میں ہے تاہم اقوام متحدہ کے دیگر اہم ادارے یورپ کے مختلف ممالک میں ہیں بالخصوص اقوام متحدہ کے 3بڑے ادارے ہیگ میں قائم ہیں جن میں عالمی عدالتِ انصاف، انٹرنیشنل کرمنل ٹریبونل جس نے یوگوسلاویہ کے سابق صدر کو جنگی جرائم میں سزا سنائی تھی اور کیمیائی ہتھیاروں کے پھیلائو کی روک تھام کیلئے اقوامِ متحدہ کا ادارہ بھی شامل ہے جس نے عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کے بارے میں تحقیقات کی تھیں.

مگر ہیگ دنیا میں اقوامِ متحدہ کی عالمی عدالت انصاف کے حوالے سے سب سے زیادہ مشہور ہے جو شہر کے وسط میں واقع ’’امن محل‘‘ میں قائم ہے اور اقوامِ متحدہ کے مرکزی عدالتی نظام کا بنیادی جز ہے۔ ہیگ میں قیام کے دوران مجھے اقوام متحدہ کے ان اداروں کے وزٹ کا بھی موقع ملا۔

عالمی عدالت کا قیام پہلی جنگ عظیم کے بعد 1946میں عمل میں آیا جس کا مقصد ریاستوں کے مابین قانونی تصفیہ کرنا اور عالمی اداروں اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے دائر کردہ قانونی و تکنیکی معاملات پر انصاف فراہم کرنا ہے۔ 

عالمی عدالت انصاف کے ججوں کا انتخاب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کے تحت عمل میں آتا ہے جن میں سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کے ججز کے علاوہ دنیا کے دیگر خطوں سے بھی شامل کئے جاتے ہیں اور ان کی مدت ملازمت 9سال ہوتی ہے۔ 

اس وقت عالمی عدالت میں 15ججز متعین ہیں جن کا تعلق صومالیہ، چین، سلواکیا، فرانس، مراکش، برازیل، امریکہ، اٹلی، یوگینڈا، بھارت، جمیکا، آسٹریلیا، روس، لبنان، جاپان اور بلجیم سے ہے۔

گوکہ عالمی عدالت انصاف میں پاکستان سے کوئی مستقل جج متعین نہیں تاہم پاکستان کیلئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی آج کل عالمی عدالت انصاف میں ایڈہاک جج کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ 

عالمی عدالت انصاف کے موجودہ صدر عبدالقوی احمد یوسف کا تعلق افریقہ کے پسماندہ ترین ملک صومالیہ سے ہے۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ 1970سے 73تک پاکستان سے ظفر اللہ خان اس عالمی عدالت انصاف کے صدر کے عہدے پر فائز رہے۔

میں جب شاہین سید کے ساتھ عالمی عدالت انصاف کی عمارت پہنچا تو میں اس کی خوبصورتی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ میں نے جس روز عالمی عدالت کی عمارت کا دورہ کیا، اُسی روز نماز جمعہ کے بعد ہالینڈ میں مقیم پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی نے مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط کے خلاف اور کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلئے عالمی عدالت انصاف کے سامنے ایک بڑا مظاہرہ کیا جس کی قیادت EU پاک فرینڈشپ فیڈریشن کے سربراہ پرویز لوسر کر رہے تھے۔

EUپاک فرینڈشپ فیڈریشن مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و بربریت کے خلاف یورپ کے ہر شہر میں مظاہرہ کرکے آواز بلند کررہا ہے جس پر پرویز لوسر خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ مظاہرین میں سکھ کمیونٹی بھی شریک تھی جنہوں نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھارکھے تھے جن پر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف احتجاجی نعرے درج تھے اور عالمی عدالت سے انصاف کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔ 

ٹائمنگ اس لحاظ سے اچھی رہی کہ جب یہ مظاہرہ جاری تھا، عمارت میں عدالتی کارروائی ہورہی تھی جس سے دنیا اور عالمی عدالت انصاف کے ججوں کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے آگاہی ہوئی جبکہ عالمی میڈیا نے بھی اس مظاہرے کو بھرپور کوریج دی۔

نیدرلینڈ میں قیام کے دوران ہیگ میں قائم پاکستانی سفارتخانے میں سفیر پاکستان شجاعت علی راٹھور سے بھی ملاقات ہوئی اور دوران ملاقات یہ جان کر خوشی ہوئی کہ سفیر پاکستان کی کوششوں کے نتیجے میں نیدرلینڈ اور پاکستان کے مابین تجارت ایک ارب ڈالر کے قریب پہنچ چکی ہے۔ 

شجاعت علی راٹھور نیدرلینڈ میں سفیر متعین ہونے سے قبل دو سال تک چین میں ڈپٹی ہیڈ آف مشن کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے اور انہوں نے سی پیک منصوبے پاکستان لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ملاقات کے دوران یہ سن کر خوشی ہوئی کہ ہیگ کے مہنگے ترین علاقے میں قائم پاکستانی سفارتخانے کی یہ عمارت، حکومت پاکستان کی ملکیت ہے۔ 

عالمی عدالت انصاف کے وزٹ کے بعد عمارت سے نکلتے وقت میں یہ سوچنے لگا کہ جب بھارت اپنے جاسوس دہشت گرد کلبھوشن جس کے ہاتھ پاکستانیوں کے خون رنگے ہوئے ہیں، کی جان بچانے کیلئے عالمی عدالت انصاف میں جاسکتا ہے تو پاکستان مسئلہ کشمیر جو اقوام متحدہ کی قرارداد کے باوجود اب تک حل نہیں ہوسکا، کیلئے عالمی عدالت انصاف میں کیوں نہیں جاتا؟ 

حکومت کو چاہئے کہ وہ مظلوم کشمیریوں کے حق کیلئے عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹائے تاکہ کشمیریوں کو بھارت کے ظلم و بربریت سے نجات مل سکے۔

تازہ ترین