• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقبال ہاشمانی

پاکستان بننے کے بعد کراچی کی تہذیبی اور معاشرتی زندگی نے ایک نئ کروٹ لی ہے ۔ ہندو ، سکھ ، عیسائ ، یہودی ، پارسی ، اور مسلمانوں کی مختلف علاقائی برادریاں سندھی ، بلوچ ، کچھی اور راجھستانی کے بعد مہاجرین کی آمد نے شہر کی رونقوں میں مزید اضافہ کیا ہے ۔ دہلی کے مسالوں کے ساتھ دکن کے اچار چٹنیاں اور گجرات کاٹھیاواڑ کے نمکو نے کراچی کی فضاوُں کو مہکا دیا ۔

رنچھوڑ لائین اور بوہرا پیر کے علاقے میں بھائی نامن نے نہاری کی دکان کھولی ۔ یہ کراچی میں نہاری کی پہلی دکان تھی ۔ چاند بی بی روڈ پر لکھپتی سے آگے والی گلی کے کونے پر نہاری کی اس دکان نے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا ۔ صبح فجر کے بعد رات بھر کی پکی ہوئی نہاری کی دیگ کھولتے ہی خریدار آنے شروع ہوجاتے ، جن کو یہیں بیٹھ کر کھانا ہے وہ گرما گرم اترتی خمیری روٹی کے ساتھ نہاری کے مزے لیتے،۔ جن کو گھر لے جانی ہے وہ اپنے ساتھ برتن لے کر آتے ۔ بھائی نامن کی نہاری خاصی مشہور ہوگئ تھی ۔ کراچی میں فلموں کی شوٹنگ کے لیے آنے والے آرٹسٹ بھی اس نہاری کے شوقین تھے ۔ مشہور ہے کہ یہ نہاری روزانہ ڈھاکہ بھی جاتی تھی ۔

نہاری کھانے کا صحیح وقت صبح کا ہے، اسی لحاظ سے اس کا نام ہی نہاری ہے۔ بھائی نامن کی نہاری کی کامیابی نے اور لوگوں کو بھی اس جانب متوجہ کیا ۔ بوہرا پیر ہی میں اسلم روڈ پر صدیق جراح کی دکان کے سامنے والی گلی میں ادریس نامی ایک شخص نے نہاری کی دکان کھولی ہے ۔ بس یونہی کسی وجہ سے یہ پھوپھا کی نہاری کے نام سے مشہور ہوگئ ۔

ادھر رامسوامی میں دہلی نثار ہوٹل نے بھی نہاری شروع کردی ۔ اس کے مالک نثار پہلوان تھے ۔ اونچے قد کاٹھ کے دنگل بھی لڑا کرتے تھے ۔ ان کا تعلق دہلی کی ارائیں برادری سے تھا ۔ (کراچی کی بیشر نہاری کی دکانیں اسی برادری کے لوگوں کی ہیں ۔ یہ لوگ دہلی میں فروٹ اور سبزی کا کام کیا کرتے تھے ) ۔

رنچھوڑ لائین کی صابری مسجد سے ملحق کباڑی مارکیٹ میں ایک برتن ساز کا کارخانہ ہوا کرتا تھا ،جہاں تانبے کے برتن ڈھالے جاتے تھے ۔ اس دکان کے مالک کا اجمیر شریف جانا ہوا ۔ واپس آئے تو وہاں کی دیگ کے نمونے کے مطابق اسٹیل کی ایک دیگ تیار کی ۔ اب تک نہاری تانبے کی گول دیگ میں بنائی جاتی تھی ۔ 

اس کرخندار نے نثار پہلوان کو اس دیگ کے استعمال کرنے پر آمادہ کرلیا۔ اسٹیل کی یہ دیگ ہوٹل میں نصب تو کردی گئ لیکن لوگوں کا یہی کہنا تھا کہ یہ تجربہ ناکام رہے گا ۔ تانبے کی دیگ میں بننے والی نہاری اسٹیل کی دیگ میں پک ہی نہیں سکے گی ۔ اور اگر پک بھی گئ تو وہ ذائقہ نہیں رہے گا۔ لیکن نثار پہلون نے اس بات کا بیڑا اٹھانے کے ساتھ ایک نیا تجربہ بھی کر ڈالا ۔ اور صبح کے بجائے شام کے وقت نہاری لگانی شروع کردی ۔ یوں کراچی میں اسٹیل کی حالیہ مروجہ دیگ اور رات کی نہاری کا آغاز ہوا ۔

نہاری کراچی کے لوگوں کی مرغوب ڈش بنتی چلی گئ لیکن اسے اصل شہرت عیدگاہ پر قائم ہونے والی صابر کی نہاری سے ملی ۔ کچھ تو لوکیشن کا اثر اور کچھ رات میں نہاری کا چلن اس دکان کی مشہوری کا سبب بنے ۔ ہلکےمسالوں والی اس نہاری نے کراچی کے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا ہے ۔ ویک اینڈ اور چھٹی والے دن تو یہاں خاصا رش رہنے لگا ۔ لوگ دور دور سے یہاں نہاری کھانے آنے لگے ۔

ادھر رنچھوڑ لائین میں صابری مسجد کے گیٹ کے ساتھ تقی کا ہوٹل تھا ۔ پہلے یہاں دوپہر کو قیمہ وغیرہ ملا کرتا تھا ۔ نہاری کی مقبولیت نے بھائی تقی کو اس طرف متوجہ کیا ۔اس کی نہاری شہر میں بننے والی ان تمام نہاریوں سے یکسر مختلف تھی ۔ اس نےاول تو اپنی نہاری کے لیے گوشت کا معیار بہت اچھا رکھا ، دوم انہوں نے نہاری میں قورمے کے مہنگے مسالے استعمال کرنے شروع کیے ۔ شہر کے بیشتر سکہ بند نہاری بنانے والے اپنے نسخے کوہی معتبر سمجھتے ہیں ۔ 

ہم تو یہ بات جانتے ہیں کہ جو ذائقہ بھائی تقی کی نہاری میں تھا، اس کا پورے شہر میں کوئ ہمسر نہیں ۔ ایک تو نہاری کمال کی اوپر سے ہفتے کی رات نہاری پر خصوصی طور پر توجہ دی جاتی تھی ۔ لوگ مغرب سے پہلے ہی اپنے برتن رکھوادیتے تھے ۔ رمضان کے دنوں میں تو علاقے کے لوگوں کا غالب رجحان اسی جانب رہتا ۔ بھائی تقی کا ہوٹل تو اب بند ہوچکا ہے لیکن جن لوگوں نے یہاں کی نہاری کھائی ہے وہ آج بھی اسے یاد کرتے ہیں۔

تازہ ترین