• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’لنڈا بازار‘ خوش حال طبقے نے بھی اب ادھر کا رخ کر لیا ہے

شہر قائد میں سردیاں شروع ہوتے ہی متوسط اور غریب طبقے کے افراد نےگرم کپڑوں کی تلاش میں لنڈا بازاروں کا رخ کر لیا ہے۔ مختلف علاقوں میں لنڈا بازار کی رونقیں بحال ہوگئی ہیں۔لنڈا بازار جانے والوں کے ہوش اس وقت اڑ گئے، جب انہیں معلوم ہوا کہ اب لنڈا مال کی قیمت بھی ان کی دسترس سے باہر ہوچکی ہے۔ رواں سال ان بازاروں میں غریب اور متوسط طبقے کو مایوسی کا سامنا ہے، استعمال شدہ پرانے درآمدی ملبوسات، کمبل، سویٹرز، جیکٹس کی قیمتیں دگنی ہوگئی ہیں، اس کے باوجود لوگ یہاں خریداری کرنےپر مجبور ہیں، کیونکہ گرم کپڑے ہر شخص کی ضرورت ہیں۔خوشحال طبقے نے بھی اب لنڈا بازاروں کا رخ کر لیا ہے، جس کی وجہ سے گرم ملبوسات کی قیمتیں مزید دگنی ہوگئی ہیں ۔

کراچی میں سرد موسم کے سیزن میں ،جہاں خشک میوہ جات کا ملکی اور بیرون ملکی کاروبار ہوتا ہے، وہیں کراچی میں لنڈے کے گرم کپڑوں کی مرکزی مارکیٹ ہونے کی وجہ سے یہاں سےلنڈے کا کاروبار ملک بھر اور بیرون ممالک میں بھی ہوتا ہے۔ لنڈے کے گرم کپڑے زیادہ تر بحری جہازوں کے ذریعہ آتے ہیں۔

کراچی میں پرانے کپڑوں کی مارکیٹ لائٹ سینما کے ساتھ ایک گلی میں تقسیم سے قبل سے قائم تھی، اس بازار سےمنسلک بڑی تعداد کچھی میمن برادری کی تھی ،جنکی اکثریت مارکیٹ کے سامنے ہی گاڑی کھاتے میں رہائش پزیر تھی ۔ پرانے گرم ملبوسات کے بڑے خریدار شمالی علاقہ جات کےلوگ تھے جو آہستہ آہستہ اس مارکیٹ کو سمجھنے لگے اور صدر ایوب کے دورمیں اس مارکیٹ میں انہوں نے قدم رکھا اور آہستہ آہستہ اس مارکیٹ پر چھاتے گئے۔

 پٹھانوں کی نسبت سے یہ مارکیٹ ” لالہ گلی ” کہلاتی تھی، مگر اب یہ مارکیٹ بھی لنڈا بازار کہلاتی ہے اور نہ صرف یہ کہ چار گلیوں تک پھیل گئی ہے بلکہ اس کی ہیبت بھی تبدیل ہوگئی ہے، اب یہ صرف پرانے کپڑوں تک محدود نہیں بلکہ پرانے جوتے، کھلونے اور چائنا سے درآمد شدہ نیا مال بھی مارکیٹ کی زینت ہے۔

آخر لنڈا بازار کو لنڈا بازار کیوں کہا جاتا ہے اور اس کی شروعات کب سے ہوئی؟ لنڈا بازار کے بارے میں یہ کہانی مشہور ہے کہ برصغیر میں ایک خاتون جو کہ ایک انگریز افسر کی بیوی انتہائی رحم دل تھی، اس نے دیکھا کہ لاہور کے اندر بہت غربت ہے اور لوگوں کے پاس پہننے کو کپڑے بھی نہیں تو اس نے اپنے جاننے والوں میں بات چلائی اور خود بھی کچھ پیسے جمع کئے اور اپنی استعمال شدہ کپڑوں کے ساتھ ساتھ اپنی سہیلیوں اور اپنے دوستوں سے بھی کپڑے لئے اور جو پیسے جمع ہوئے تھے اس کے بھی کپڑے لے کر ایک لاہور میں اسٹال لگا دیا آہستہ آہستہ لوگوں نے اس کی فنڈنگ زیادہ کردی ۔

اس کا کام بھی چل پڑا، لینڈا کے کام کو دیکھتے ہوئے اور اسٹال بھی لگنے لگے، حتیٰ کہ ایک دن ایک ا سٹال ایک پوری مارکیٹ میں بدل گیا۔ شروع میں اس کا نام خاتون کے نام سےlindaلینڈا مارکیٹ تھا لیکن بعد میں لنڈا بن گیا ۔

استعمال شدہ اشیاء کے استعمال کا آ غاز کپڑوں سے ہوا جن کی آمد برصغیر میں برطانیہ سے شروع ہوئی ۔ہر برس برطانیہ کے طول و عرض میں ہزاروں لوگ اپنے استعمال شدہ کپڑے خیرات میں دے دیتے ہیں اور اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ یہ کپڑے ان لوگوں کو دیے جائیں گے جنھیں ان کی ضرورت ہے یا ان کپڑوں کو برطانیہ کے بازاروں میں خیراتی اداروں کی دکانوں میں فروخت کر کے ان اداروں کے لیے رقم اکٹھی کی جائے گی۔

لیکن ان پرانے کپڑوں کی ایک بہت بڑی تعداد دراصل سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کے کاروبار کا حصہ بن جاتی ہے اور خیرات میں دیے ہوئے کپڑے اربوں کی ایک ایسی تجارت میں استعمال کیے جاتے ہیں، جس کا دائرہ کئی ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔آج بھی پاکستان سمیت بہت سے ممالک استعمال شدہ اشیاء کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔

کراچی میں لنڈے کے کپڑوں کی مرکزی مارکیٹ لائٹ ہاؤس میں کاروبار تو سال بھر رہتا ہے، تاہم سردی کے سیزن میں کاروبار خاصا بڑھ جاتا ہے۔چند سال قبل کراچی میں ماہانہ ساڑھے 3 ہزار سے زائد کنٹینر آتے تھے۔ اور لنڈے کے گرم کپڑوں کو سردی کے سیزن سے تین ماہ قبل جمع کر لیا جاتا تھا۔

لیکن اب لنڈے کے کپڑوں کے ماہانہ 1200 سے 1300 کنٹینر آتے ہیں ،جن کو کراچی کے علاقوں شیر شاہ، اولڈ حاجی کیمپ اور بہار کالونی میں موجود گوداموں میں ڈمپ کر دیا جاتا ہے، جبکہ لائٹ ہاؤس میں تاجر سودے کرتے ہیں۔ لنڈے کا مال مختلف ممالک سے آتا ہے۔ ان میں رضائیاں امریکہ، کمبل کوریا سے، پینٹ اور کوٹ برطانیہ سے آتے ہیں۔

کراچی میں لنڈا مال کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شہر میں لگنے والے 200 سے زائد بچت بازاروں میں لنڈا مال کا ایک الگ پورشن لگایا جانا لازمی ہوگیا ہے، جبکہ شہر کے ہر علاقے میں لنڈا مال کی 12 ہزار چھوٹی بڑی دکانیں قائم ہیں، جہاں استعمال شدہ پردے، بیڈ شیٹس، بچوں اور بڑوں کے پینٹ، شرٹ، ٹی شرٹس، موزے، سویٹرز، کمبلوں کے علاوہ پرانے برتن، الیکٹرانک مصنوعات اور جوتوں کی فروخت ہوتی ہے۔

پاکستان میں سب سے زیادہ لنڈا مال امریکہ اور برطانیہ سے درآمد ہوتا ہے جبکہ ہالینڈ، جرمنی، بلجیم، جاپان، کوریا، چین سے بھی پرانے ملبوسات کی درآمدات ہو رہی ہے۔ کراچی پورٹ پر اس کو وصول کیا جاتا ہے اور پھر وہ اسے پورے ملک میں اس کی تقسیم کی جاتی ہے، جبکہ کوالٹی کے حساب سے چیزوں کو الگ الگ کرکے ہر ایک ہی الگ الگ قیمت بھی لگائی جاتی ہے۔

لنڈے کا کام اگرچہ محلوں اور بچت بازاروں تک وسیع ہوگیا ہے، لیکن فی کنٹینر کی درآمدات پر ڈیوٹی و ٹیکسوں کی مد میں 100 فیصد اضافے سے اس کی درآمدی لاگت بڑھ گئی ہے، جس کے سبب گذشتہ 2 سال میں لنڈا مال کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔

اب پاکستان میں درآمد ہونے والے لنڈا مال کا معیار اچھا نہیں رہا ہے، کیونکہ امریکہ برطانیہ اور یورپی ممالک کے عوام میں بھی اب ہر سال کرسمس کے موقع پر پرانے ملبوسات چیریٹی میں دینے اور نئے ملبوسات کی خریداری کا رحجان کم ہوگیا ہے، اب وہ ملبوسات ایک سال کے بجائے 3 سال تک استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک میں برانڈڈ پرانے ملبوسات اور جوتوں کی بڑھتی ہوئی طلب کو بھانپتے ہوئے غیر ملکی بیوپاریوں نے لنڈا مال کے درجے (کیٹیگریز) بنالی ہیں اور درجہ اول مال کی ہوشربا قیمتیں طلب کرنا شروع کر دی ہیں۔

پاکستان میں لنڈا مال کی مجموعی درآمدات کا 50 فیصد افغانستان کی مارکیٹوں میں پہنچ جاتا ہے، درجہ اول کا حامل 30 فیصد لنڈا کا مال فنشڈ اور پروسیس ہوکر تھائی لینڈ اور جنوبی افریقہ کو ری ایکسپورٹ کر دیا جاتا ہے، اس طرح سے مجموعی درآمدات کا بمشکل 20 فیصد مال مقامی مارکیٹوں میں فروخت کیا جاتا ہے۔

تازہ ترین