دنیا میں انسانی زندگی کا آ غاز جنگلوں سے ہوا تھا۔ جنگل کے دور سے نکل کر انسان کاشت کاری میں مشغول ہوا، بنیادی مقصد بھوک مٹانا تھا۔ کھیتی باڑی شروع ہوتے ہی انسان نے سیاست میں بھی قدم رکھا اور دنیا میں قبیلوں کے سردار کی جگہ بادشاہت آگئی۔ بادشاہوں کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ ایسے علاقوں پر قبضہ کریں جو زرخیز ہوں اور وہاں پانی آسانی سے میسر ہو، اس کے لئے دریاوں سے ملحقہ علاقے سب سے اہم ہوتے تھے، کیونکہ دریائی وادیاں سیلابی پانی اور مٹی کی وجہ سے زرخیر اور پانی سے بھرپور علاقے ہوتے تھے۔ اسی لئے دنیا کی تمام پرانی تہذیبیں دریائوں کے کناروں پر آباد ہوتی تھیں۔ جی ہاں! آپ تھوڑا سا غور کریں تو آپ کو اس بڑی حقیقت کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا جیسے سب سے پہلی تہذیب میسوپوٹیمیا، موجودہ عراق، دجلہ اور فرات کے کناروں پر آباد ہوئی۔ مصر کی تہذیب دریائے نیل کے کنارے، ہڑپہ راوی کے کنارے جبکہ موہنجو دڑو سندھ کے کنارے آباد ہوئی۔ اگلی حقیقت اس سے بھی دلچسپ، وہ اس طرح کہ چونکہ آج سے دس ہزار سال پہلے جب کاشت کاری کا آغاز ہوا اور پوری دنیا کی آبادی بمشکل 50لاکھ تھی، اس لئے اس وقت کے بادشاہ زرخیز زمین کے علاوہ آبادی میں دلچسپی لینے لگے کیونکہ ان کو احساس ہونے لگا کہ صرف علاقہ یا رقبہ ہی کافی نہیں بلکہ ان کی رعایا بھی ہونی چاہئے تاکہ انہیں اپنے بادشاہ ہونے کا احساس زیادہ پُرکشش محسوس ہو۔ اس دور میں بادشاہ بادشاہوں سے ٹکراتے تھے یعنی خالص طاقت کی سیاست ہوتی تھی۔اس کے بعد انسان مشین کے دور میں داخل ہوا، یعنی صنعتی انقلاب آ گیا۔ اس انقلاب کی وجہ سے شہر تیزی سے آباد ہوئے۔ شہری آبادی میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہوا، اس سارے انقلاب کا گڑھ یورپ بنا۔ برطانیہ دنیا کا پہلا ملک تھا جس کی شہری آبادی دیہی آبادی سے بڑھ گئی۔ دنیا میں شہری آبادی ہی کی جدوجہد کی بدولت دنیا کی سیاست میں جمہوریت نے جنم لیا، 1789ء میں فرانس کے انقلاب نے آزادی، اخوت اور مساوات کے نعرہ کے ساتھ پوری دنیا میں بالخصوص یورپ میں جمہوریت کو متعارف کروایا اور پھیلایا۔ جمہوری انقلاب میں بادشاہوں کا ٹکرائو اپنے عوام سے ہوا اور یوں دنیا کی سیاست میں جمہور کا دور آگیا۔ اس کے بعد دنیا کی سیاست اور معیشت میں ایک نیا انقلاب اشتراکیت (Communism) کی شکل میں آیا، اگرچہ یہ نظریہ کتاب کی شکل میں 1867ء میں پیش کیا گیا مگر اس کا پہلا عملی نمونہ 1917ء میں انقلابِ روس کی شکل میں سامنے آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے روس ایک عالمی طاقت بن گیا۔ اس معاشی و سیاسی انقلاب نے پوری مغربی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ ’’صرف جمہوریت سے ترقی‘‘ کے نطریے اور نعرے کو شدید دھچکا لگا۔ دوسری عالمی جنگ کے ختم ہوتے ہی روس اور امریکہ اور ان کے اتحادیوں میں سرد جنگ کا آغاز ہو گیا۔ اس جنگ کو صحیح معنوں میں عالمی جنگ کہا جاتا ہے کیونکہ اس جنگ میں تمام براعظم شامل تھے، یوں پوری دنیا میں دو نظریات کی سیاست شروع ہو گئی۔ ان نظریات کی کشمکش نے دنیا کی کئی علاقوں کو جنگ میں دھکیل دیا جن میں ویتنام اور افغانستان کی جنگیں سب سے اہم ہیں کیونکہ ویتنام میں امریکہ جبکہ افغانستان میں روس کو شکست ہوئی۔ روس کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ واحد عالمی طاقت کے طور پر ابھرا لیکن تقریباً گزشتہ ایک دہائی سے چین امریکہ کے مقابل آچکا ہے۔ چونکہ چین بھی نظریاتی طور پر ایک کمیونسٹ ملک ہے اس لئے چین امریکہ کی کشمکش شروع ہو چکی ہے جس کو Revival of Cold War بھی کہا جا رہا ہے۔
دنیا میں مگر 1990 کی دہائی میں ایک نئے عالمی مسئلے نے سر اٹھایا اور یہ مسئلہ ہے ماحولیات، جو آج کی دنیا کا سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ شروع میں اس کو Green issues Politicsکہا گیا۔ اس کی بنیادی وجوہات میں آبادی میں بے ہنگم اضافہ، شہری آبادی کا تناسب بڑھنا، دھواں دینے والے توانائی کے ذرائع، شہروں میں پختہ عمارتوں کا جنگل وغیرہ شامل ہیں۔ سب سے پہلے پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑا اور اس کو باقاعدہ ایک مسئلہ مانا گیا جس کے تحت Water Wars کاتصور پیش کیا گیا، جس نے جلد ہی عملی شکل اختیار کرلی اور تاحال ایک درجن سے زائد ممالک میں پانی پر جھگڑے چل رہے ہیں۔ پانی کا درجہ حرارت بڑھنے کی بازگشت سنائی دی، جسے گلوبل وارمنگ کا نام دیا گیا، اس بڑھتے درجہ حرارت کی وجہ سے گلیشیرز پگھلنے لگے اور خدشہ ہے کہ سطح سمندر بلند تر ہوتے جانے سے عنقریب ساحلی علاقے زیر آب آجائیں گے، مزید تشویش کی بات یہ ہے کے ان گلیشیرز کے نیچے دبی نقصان دہ گیسیں ماحول کا حصہ بن نقصان دوبالا کر دیں گی۔ اسی طرح دنیا میں بارشوں کی مقدار میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ بے موسمی بارشیں ہونے لگی ہیں۔ یہاں یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں درجہ حرارت صرف بڑھ نہیں رہا بلکہ سردیوں میں شدت سے خاصا کم بھی ہو جاتا ہے اور برف باری وقت سے پہلے شروع ہو جاتی ہے جس سے نظامِ زندگی متاثر ہی نہیں بلکہ مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے۔ اسی لئے اسے ماحولیاتی تبدیلی کے بجائے ماحولیاتی تباہی کہا جا رہا ہے۔ اب باری اس عذاب نما عفریت کی ہے جس کا شکار پاکستان سمیت تقریباً پورا جنوبی ایشیا ہے، جس کا نام اسموگ ہے۔ یہ زہریلی دھند اکتوبر کے آغاز سے نومبر تک جاری رہتی ہے۔ اس کی وجہ سے صرف لاہور شہر میں سالانہ ایک لاکھ سے زائد لوگ مارے جاتے ہیں۔ ماہرین اسے پانچواں موسم قرار دے رہے ہیں اگر اسے آخری اور ہلاکت کا موسم قرار دیا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔
شروع میں ذکر ہوا تھا کہ بادشاہ زمین کے علاوہ آبادی میں دلچسپی لیتے تھے مگر اب وقت آگیا ہے کہ حکمران کھلی زمین، صاف اور بکثرت پانی اور جنگلات میں دلچسپی رکھیں۔ بدقسمتی سے ماحولیات کی اس مسلط کردہ جنگ کو دنیا نے دیگر جنگوں کی طرح لڑنا مکمل طور پر شروع نہیں کیا جبکہ یہ صحیح معنوں میں سرد جنگ سے بھی زیادہ بڑی اور آخری عالمی جنگ ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں سلگتی، جلتی، ڈوبتی اور گھٹن زدہ زمین کے صرف انسان ہی نہیں بلکہ ہر جاندار چیز بتدریج زخمی، بیمار اور ہلاک ہو رہی ہے۔