• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس طرح آج کل ضمانتیں کروڑوں روپے کے عوض منظور کی جا رہی ہیں۔ ہم جیسوں کو اپنی کم مائیگی پر ندامت کے علاوہ خوف آنے لگا ہے۔ 7کروڑ روپے کیش زرِ ضمانت مانگا گیا اور دیا بھی گیا۔ یہ غریب قوم سوچ کر ہی شرمندہ بھی اور خوفزدہ بھی ہو جاتی ہے، پھر ذرا آگے بڑھیں تو پتا چلتا ہے کہ 12کھرب سے زائد ٹیکس ریونیو جمع ہے۔ میں نے اکنامکس پڑھی تھی مگر یہ اکنامکس سمجھ میں نہیں آرہی۔ بالکل اسی طرح کہ پہلے لندن میں ٹرالر سے 93لاشیں نکلیں اور اب فرانس میں 31پاکستانیوں کی لاشیں نکلی ہیں، اس کے باوجود کہ حکومت وقت نوجوانوں کے لئے وظائف کا اعلان کے علاوہ بزنس کرنے کیلئے بلاسود قرضے بھی دے رہی ہے۔ کیا قوم کے نوجوان ان اعلانات کو بھی پچھلی حکومتوں کے اعلانات کی طرح سمجھ رہے ہیں کہ 2008ء سے لے کر اب تک دونوں گزشتہ حکومتوں کے فلاحی اعلانات ’’دھول مٹی‘‘ نکلے، مگر ان کی اپنی تجوریاں بقول آج کی حکومت کے، بھرتی ہی گئیں۔ واقعی ایسا نہ ہوتا تو کیش 7کروڑ کیسے نکلتے اور ظاہر ہوتے۔

نجانے کیوں آج کل ملک کے حالات دیکھ کر راشد صاحب یاد آرہے ہیں (وہ بھی مجھے زاہدہ حنا نے بتایا) اور پھر دھرنا اور مسلسل بارش کے درمیان یہ شعر؎

غم گرجا برسا، جیسے آمر گرجے برسے

خلقت سہمی دبکی تھی اک مبہم سے ڈر سے

خلقت نکلی پھر گھر سے

راشد صاحب کی نظم کے ساتھ ہی مجھے فرعون اور نمرود کا قصہ بھی یاد آگیا۔ اور حاکمانِ مملکت کا گرجنا، دھاڑنا ’’میں نہیں دوں گا، میں نہیں دوں گا‘‘۔ ساتھ ہی نواز شریف اور آصف زرداری کی بیماریاں بھی خالی نہیں، بلکہ دس ہزار قیدیوں کی بیماری کے باعث رہائی کی درخواستیں بھی آچکی ہیں۔ ادھر کے۔پی میں 34دن کے بعد ڈاکٹروں کی ہڑتال ختم ہوئی جبکہ سندھ میں پروفیسروں کی اور لاہور میں نابینا افراد کی ہڑتال جاری ہے۔ میرے گھر میں نوکروں کی ہڑتال ہے کہ وہ مجھ سے ٹماٹر مانگتے ہیں، میں کہتی ہوں ناں۔ وہ کہتے ہیں ادرک لہسن، میں کہتی ہوں ناں۔ انہوں نے کھانا بنانے سے انکار کر دیا۔ میں نے لاکھ کہا میتھی دانہ ڈال لو، دہی ڈال لو۔ وہ اس پر کہتے ہیں ’’پھر آپ ہم سے ذائقے دار کھانا مت مانگیے گا‘‘۔ ادھر ساری مائیوں نے نوٹس دے دیا ہے کہ ہر کام کے اب دو ہزار کی جگہ 4ہزار روپے ہوں گے۔ بجلی اور گیس والوں کا بھی اسی طرح کا نوٹس آیا ہے۔ پھلوں کی مہنگائی دیکھ کر، میری عزیز دوست ڈاکٹر نے کہا سیب کی جگہ امرود اور بیر کھائیں۔ سرسوں کے تیل میں ہنڈیا پکائیں۔ روٹی ایک وقت کھائیں پرانے کپڑے بھی اس طرح ٹھیک آجائیں گے۔ میں نے آزادی مارچ کے شرکا سے پوچھا تھا ’’آپ کیسے گزر کر رہے ہیں‘‘ بولے ’’اللہ دیتا ہے۔ ہم کھاتے ہیں۔ کہیں سے چاٹ آ جاتی ہے۔ کہیں سے دہی بڑے اور کہیں سے قیمے والے نان۔ ویسے ہمیں ایسی چیزیں کھانے کی عادت نہیں ہے۔ ہم نے ہزار بار بتایا کہ لانا ہے تو ایک بکرا لا دو۔ باقی کھانے بنانے کا کام ہم خود کر لیں گے‘‘۔ مگر اسلام آبادی، سرکاری حکم نامے کے باعث خوفزدہ ہیں۔ وہ تو نام بدل کر عورتوں کی طرف سے ہمیں چیزیں بھیج رہے ہیں۔

جس طرح نوبیل انعام یافتہ اکنامسٹ بینرجی صاحب نے کہا ہے کہ ہمارے ملکوں کو غربت دور کرنے کے لئے ایک اور قسم کی معیشت چاہئے۔ آخر ہم نے بلوچستان کے پہاڑ خالی کیوں چھوڑے ہوئے ہیں۔ وہاں پہلے ہیلی کاپٹر کے ذریعہ کھاد اور بیج ڈالے جائیں۔ پھر فصل پر انہی ہیلی کاپٹروں سے پانی کا چھڑکائو کیا جائے۔ جب فصل تیار ہوگی تو ہمارے بلوچ، ہزاروی اور پشتون، فصل کاٹ لیں گے۔ اگر افریقہ، روس اور کیلیفورنیا میں صحرائوں کو قابل استعمال بنایا جا سکتا ہے۔ سامنے ہی دیکھئے دبئی کی کایا کلپ، یہ الگ بات، موسمی تبدیلی اب وہاں بھی بارشوں کے ذریعہ سیلاب کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ دنیا اس موسمی تبدیلی کو سمجھ ہی نہیں پا رہی ہے۔ برطانیہ اور یورپ میں کبھی سیلابی بارشیں ہوئی تھیں۔ پاکستان میں اکتوبر تک بارشیں کبھی سنی تھیں۔ کبھی پلاسٹک کے انڈوں کا سنا تھا۔ بزرگ کہیں گے، قربِ قیامت کی نشانیاں ہیں۔ دنیا میں مصنوعی ذہانت یعنی روبوٹس اور مصنوعی گوشت کو فروغ دینے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ہمارے یہاں ادرک تک چین سے منگوایا جا رہا ہے۔ اس وقت فرانس تک میں کہا جا رہا ہے کہ بچوں کو جنسی غلامی اور بچپن کی جبری مزدوری سے نکالنے کا طریقہ یہی ہے کہ ان سب کو باہر اور جیل میں فنی تعلیمی پروگرام میں ڈال دیا جائے تو یہ اذیت کم ہو سکتی ہے۔

حفیظ شیخ نے ٹیلی وژن پر بتایا کہ ٹماٹر تو منڈی میں 17روپے کلو مل رہے ہیں۔ مجھے غلام اسحٰق خان یاد آگئے۔ وہ وزیر خزانہ تھے۔ جب بجٹ بل پیش کر رہے تھے تو انہوں نے کہا تھا ’’میرے خانساماں نے بتایا ہے کہ ٹماٹر مہنگے ہو گئے ہیں‘‘۔ ساری دنیا ہنس پڑی کہ ملک کے وزیر خزانہ کا عام آدمی کی مشکلات کے بارے میں اگر یہی علم ہے تو پھر خزانے کا خدا حافظ ہے۔ اگر سیاست دانوں کو عام آدمی کے بارے میں اتنا ہی احساس ہے، جس کا اظہار عمران خان نے بھی یہ کہہ کر کیا ہے کہ ’’شاید میری زندگی میں ریاستِ مدینہ نہ بن سکے‘‘ ارے! ابھی تو حکومت کے چار سال پڑے ہیں۔ ابھی تو آپ کے بقول لٹیروں سے رقمیں نکلوانی ہیں۔ ابھی سے دل ہار گئے۔ ابھی تو آپ کو ڈھائی کروڑ بچوں کو پڑھانے کے لئے اسکول اور اساتذہ فراہم کرنے ہیں۔ ویسے یہ کام ذرا ٹھہر کر بھی ہو سکتا ہے۔ ذرا جو اسکول،اساتذہ خالی پڑے ہیں۔ اور جن اسکولوں میں پٹواری کی بکریاں بندھی ہیں، وہاں تو مقامی ایم پی ایز کے ذریعے حالات کو سدھار لیں۔

تازہ ترین