’’سر سبز لہلہاتے کھیت، وسیع ، دل فریب سمندر،مسحور کُن شامیں ، برف پوش پہاڑ… مَیں شاعر تو نہیں،پرلگتاہے،پاکستان کی خُوب صورتی شاعربنادے گی۔ یہ مُلک قدرت کی عطا کردہ نعمتوں سے مالا مال ہے، مکران کوسٹل ہائی وے، وہاں موجود سمندر، ایسا جمال، یہ نظارا ہم نے زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا ۔ پرجا بجا بکھری گندگی، صفائی ستھرائی کے حوالے سے عدم شعور،اس بات کی عکّاسی کرتا ہے کہ پاکستانیوں کو ادراک ہی نہیں کہ قدرت نے انہیں کتنا بڑا خزانہ عطا کر رکھاہے۔شاید اس کی ایک وجہ یہاں رائج طبقاتی نظامِ تعلیم بھی ہے۔
ویسے تو پوری دنیا ہی میں پبلک اور پرائیویٹ اسکولز کا تصوّر یا نظام رائج ہے، لیکن پبلک اسکولز میں بھی معیاری تعلیم کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ ہم اپنے ٹورکے ذریعے لوگوں ، بالخصوص ایشیائی اور یورپی نوجوانوں کو قریب لانا چاہتے ہیں، ایشیائی ممالک کے حوالے سے منفی تاثر کو ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ سب مل جُل کر اس دنیا کو ایک بہتر جگہ بنا سکیںاور ساتھ مل کر ترقّی کر سکیں۔ ‘‘
وطنِ عزیز، پاکستان سے متعلق یہ خُوب صُورت خیالات، نظامِ تعلیم کے حوالے سے عمیق تجزیہ کسی پاکستانی کا نہیں، بلکہ دویورپی سیّاح، ’’سیبیسٹین ہولر اور سیبیسٹین مایا‘‘ کا ہے۔ کالج کے اختتامی دِنوں میں دو ہم نام دوستوں نے ورلڈ ٹور کاارادہ کیا اور ٹور بھی ایسا کہ جس کا مقصد صرف سیر سپاٹا نہیں، بلکہ یورپی اور ایشیائی ممالک کے باشندوںکو قریب لانا ہے۔10 جون 2019 ء سے شروع ہونے والا سفر 6 ماہ بعد انہیں پاکستان لے آیا۔
ایڈ وینچر کے شوقین دونوں سیّاح یہ سفر اپنی چھوٹی سی وین میں کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہم نے نوجوان سیاحوں ،سیبیسٹین ہولر اورسیبیسٹین مایا سے ایک مختصر ملاقات کی ، جس میں ان کے ٹور، پاکستان کے حوالے سے مشاہدے اور یہاں کے لوگوں کو انہوں نے کیسا پایاوغیرہ وغیرہ جاننے کی کوشش کی۔ ان سے ہونے والی بات چیت نذرِ قارئین ہے۔
س: اپنے بارے میں کچھ بتائیں؟ کس مُلک سے تعلق ہے؟
ج:ہم دونوں کا تعلق برّ ِ اعظم یورپ کی ایک چھوٹی سی ریاست، آسٹریا سے ہے۔ مَیں تاریخ کا طالبِ علم ہوں، جب کہ میرا دوست سوِل انجینئر ہے۔ آسٹریا،پاکستان کے مقابلے میں ایک بہت چھوٹا سا مُلک ہے۔ جہاں کی آبادی تقریباً 8 ملین ہے۔کئی مرتبہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم ’’آسٹریلیا‘‘سے ہیں، یعنی بہت سے لوگ ہمارے مُلک کے بارے میں جانتے تک نہیں ، اس لیے اپنی شناخت کروانا تھوڑا مشکل ہوجاتا ہے۔
س: آپ کے ورلڈ ٹورکے مقاصد کیا ہیں؟نیز ،شاہراہِ ریشم کے حوالے سے کیا جانتے ہیں؟
ج: سیبیسٹین ہولر گویا ہوئے،جب مَیں نے تاریخ کا مطالعہ شروع کیا، تو مجھے زمانۂ قدیم کے ایک ’’silk routeیا شاہراہِ ریشم‘‘ کے بارےمیں معلوم ہوا۔ جس کے ذریعے یورپ اور ایشیا کے درمیان مضبوط تعلق قائم ہوا۔ درمیان میں ایسا وقت بھی آیا جب یہ تعلق کچھ کم زور پڑگیا۔ تاہم، موجودہ دَور میں یہ تعلق دوبارہ مضبوط ہورہا ہے۔
ہم چاہتے تھے کہ پرانے اور نئے سِلک رُوٹ کے بارے میں بہتر طور پر جانیں، اس کے ذریعے سفر کریںکہ دنیا کی ترقّی کے لیے ایشیا اور یورپ کا قریب آنا، تجارت کرنا بے انتہا ضروری ہے۔ پہلے زمانے میں یورپی دنیا سے تعلق رکھنے والے بیش تر افراد بلاخوف و خطر ایشیائی ممالک کا سفر کرتے تھے۔
آج بھی یورپی باشندے چند ایشیائی ممالک، سیر و تفریح کی غرض سے جاتے ہیں ،لیکن جنوبی اور وسطی ایشیا جانے سے گھبراتے ، جھجکتے ہیں۔جس کی وجہ کئی اقسام کے تعصبات ہیں۔ سو، ہم نے عہد کیا کہ ان تمام ممالک میں سفر کرکے دنیا ، بالخصوص یورپ کو پیغام دیں گے کہ یہ ممالک بھی اتنے ہی محفوظ ہیں، جتنے ہمارے ممالک ۔
ہم اپنے ٹور کے دوران، سوشل میڈیا کے ذریعے ایشیائی ممالک میں سیاحت کو فروغ دے رہے ہیں۔ہمارا مقصد ہے کہ پہلے کی طرح شاہراہِ ریشم کے ذریعے ایشیائی اور یورپی ممالک کے افراد قریب آئیں، رواداری کی فضا قائم ہو۔ تعصبات ختم ہوجائیں۔
س: اب تک کتنے ممالک کی سیر کر چُکے ہیں؟
ج: ہم اب تک سترہ ممالک کا سفر کر چُکے ہیں،پاکستان اٹھارواں مُلک ہے۔
س: اپنے سیاحتی سفر میں پاکستان کی سیر کا خیال کیوں آیا؟
ج: پاکستان آنے کی کئی وجوہ تھیں، جن میں سے ایک وجہ تو یہاں کا جغرافیہ، جب کہ دوسری اور اہم ترین وجہ اندرونِ سندھ پائےجانے والے ہڑپّہ تہذیب کے آثار ہیں۔ ہم نے موہن جو دَڑو کے بارے میں بہت پڑھا ہے،یورپ میں اس تہذیب کے بارے میں بہت بات کی جاتی ہے، چوں کہ مَیں تاریخ کا طالبِ علم بھی ہوں، تو اس وجہ سے بھی دنیا کی قدیم ترین تہذیب دیکھنے میں میرا تجسس مزید بڑھ گیا ۔
س: پاکستان آنے میں تحفّظات تھے؟ اور کیا آپ لوگوں کو یہاں کسی بھی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
ج: اس سوال کےجواب میں سیبیسٹین مایابہت پُر جوش انداز میںگویا ہوئے،سفری اصول ہے کہ کسی بھی مُلک یا جگہ جانے سے پہلے وہاں کی ثقافت یا علاقوں کے بارے میں مکمل معلومات لے لینی چاہئیں۔ میڈیا کے ذریعے ہم نے پاکستان کے بارے میں کچھ باتیں سُنی ہوئی تھیںاور والدین بھی کچھ ڈرے ہوئے تھے،کیوں کہ وہ بھی ہماری طرح کبھی پاکستان نہیں آئے تھے۔ اسی لیے روزانہ دن میں کئی کئی بار ہماری خیریت دریافت کرنے کے لیےان کی کالز آتی رہتی ہیں۔
ہم بلوچستان کے راستے پاکستان میں داخل ہوئے، مگر یہ بات ضرور بتانا چاہتے ہیں کہ ہمیں ویزا پراسیسنگ سے لے کر یہاں آنے تک ، کہیں بھی ،کسی بھی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ آرمرڈ افراد یا محافظین کے ساتھ چلنا ہمارے لیے نیا اور دل چسپ تجربہ تھا ، پر انہوں نے ہمیں پریشان نہیں کیا۔ ویسےافغانستان اور ایران سے آتے ہوئے ہم پہلے ہی ایسی صورتِ حال سے آشنا ہو چکے تھے۔
عوام کی بات کریں، تو خاص طور پربلوچستا ن کے لوگ انتہائی مہمان نواز ، فیّاض اور پیار کرنے والے ہیں۔ بلکہ سچ کہیں تو ہمیں تو ہر جگہ چاہنے والے ہی ملے۔ پاکستان میں اب تک کہیں بھی کوئی مسئلہ دَر پیش نہیں آیا۔عمومی طور پر لوگوں کا رویّہ خاصادوستانہ اور تعاون کرنے والا ہے۔
س: پاکستان کا کون سا علاقہ سب سے اچھا لگا اور کیوں؟
ج: آنکھوں میںچمک لیے،مُسکراتے ہوئےسیبیسٹین ہولرنے اس سوال کا جواب دیا۔یہاں آنے سے قبل ہم پاکستان کو محض میڈیا اور تھوڑی بہت ڈاکومینٹیشن کے ذریعے ہی جانتے تھے،لیکن اب اندازہ ہوا کہ دنیا میں اس مُلک کا کتنا غلط تاثر پیش کیا جاتا ہےاور یہ حقیقت ہے کہ جب تک آپ خود اپنی آنکھوں سے کچھ نہ دیکھ لیں، تب تک کسی مُلک کے بارے میں رائے قائم نہیں کرنی چاہیے اور صرف پاکستان ہی نہیں ، دنیا بھر میں کئی ممالک کے حوالے سے بہت سے مغالطے پائے جاتے ہیں، دَر حقیقت وہ ویسے نہیں ، جیسا انہیں پیش کیا جاتاہے۔
ہم نے اب تک کے اپنے تجربے سے یہ سیکھا اور مشاہدہ کیاکہ دنیا کے تمام ممالک کے افراد تقریباً ایک ہی جیسے ہیں، یعنی اچھے۔ بس 2 یا 3 فی صد لوگ ہی بُرے ہوتےہیںاور ایسے لوگ کسی بھی مُلک میں ہو سکتے ہیں۔ ہمیں مختلف ممالک کے حوالے سے پھیلے تعصّبات کا خاتمہ کرنا چاہیے۔ ہم پاکستان میں آزادی سے گھوم ، پِھر رہے ہیں، یہاں بد امنی نہیں، پر ہمیں ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی نوجوانوں کو یورپ آنے میں مشکلات فیس کرنا پڑتی ہیں۔ انہیں کڑے قوانین اور مختلف قِسم کے تعصبات کا زیادہ سامنا کرنا پڑتاہے، جو سراسر غلط اور نا انصافی ہے۔
میرے خیال میں میکسیکو میں جرائم کی شرحِ پاکستان سے زیادہ ہے، وہاں لوگ زیادہ غیر محفوظ ہیں، لیکن سیاح وہاں جانا نہیں چھوڑتے، تو پاکستان یا دیگر ایشیائی ممالک جانے میں کیسا خطرہ۔ہماری پاکستان آمد پر،پہلے بلوچستان میں خوش آمدید کہا گیا، پھر کراچی آئے تو یہاں خوش دلی سے استقبال کیا گیا۔
یہاں تک کے پولیس والوں نے ہمیں کھاناتک آفر کیا۔ ہمیں یہاں بہت مزا آرہا ہے۔ ایک بار ہماری گاڑی خراب ہوگئی، تو لوگوں نے اس کی مرمّت میں ہماری مدد کی۔ اجنبیوں کی مدد کون کرتا ہے، پرپاکستانی دوستی ،مہمان نوازی کے جذبے سے سرشار ہیں۔ اس لیے ہمیں ان سے مل کر بہت اچھا لگا۔
س: مختلف ممالک کے افراد کے درمیان ہم آہنگی کیسے بڑھائی جا سکتی ہے اور دنیا کو اس سے کیا فائدہ ہوگا؟
ج:یہ ہم جیسے ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کی ذمّےداری ہے کہ ہم معاشی طور پر نسبتاً کمزور ممالک کے نوجوانوں سے ملیں، اُن کے ساتھ تعلقات ، روابط قائم کریں اور انہیں دعوت دیں کہ وہ بھی ہمارے مُلک آئیں، ہمارے ساتھ بیٹھیں، ہماری ثقافت کے بارے میں جانیں۔ اس طرح یورپی اور ایشیائی ممالک کے نوجوانوں کے درمیان بھائی چارہ قائم ہوگا ، ایک دوسرے کے آئیڈیاز، تجربات سے استفادہ کیا جاسکے گا۔
س: باقی ممالک کے سیاحوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟ کیا انہیں بھی پاکستان آنا چاہیے؟
ج: اگر آپ قدرت کے خُوب صُورت ترین مناظر دیکھنا چاہتے ہیں، تو پاکستان ضرور آئیں۔ سیاحوں کو نہ صرف پاکستان، بلکہ پوری دنیا کی سیر کرنی چاہیے۔ یاد رکھیں! کبھی دوسروں کے مشاہدوں کو سچ نہ مانیںکہ ہر کسی کا نظریہ، خیالات الگ ہوتے ہیں، اپنے نظریات ، اپنے مشاہدوں اور تجربات کی روشنی میں خودتخلیق کریں۔
س: آپ بہت سےمقامات پر گئے، بہت کچھ دیکھا ، پاکستان میں سیاحت کی سہولتوں کے حوالے سے کیا کمی محسوس کی اور حکومت کو اس ضمن میں کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟
ج: ہمارے جیسے سیاح ، جو ایڈوینچرکے شوقین ہیں، کیمپنگ وغیرہ کرتے ہیں، ان کے لیے تو کوئی مسئلہ نہیں۔ البتہ، جو لوگ صرف گھومنے پِھرنے کی غرض سے یہاں آتے ہیں، ان کے لیےہوٹلز وغیرہ اور سفری وسائل کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو ہم کیا مشورہ دے سکتے ہیں، بس ، اسےصفائی ستھرائی کا خیال رکھنا چاہیےاور لوگوں میں بھی یہ تعلیمات عام کرنی چاہئیں۔