• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
  • قیدی کو کُرسی پیش نہیں کی جاتی، بیڑیاں ڈالی جاتی ہیں
  • آپ کا بیٹا دیوانہ نہیں، دل کا نواب، مَن کا شہزادہ ہے
  • اِک دَربدر، خاک بسر… اور عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا سفرِ مسلسل

مَیں نے روشنی کرنے کی خاطر ہاتھ سے دیوار پر لگے بٹنوں کو ٹٹولا۔ تبھی باہر عقبی دیوار اور دالان کی طرف سے اچانک شور اور بہت سے لوگوں کے بھاگنے، چِلّانے کی آوازیں آنے لگیں۔ ’’پکڑو… جانے نہ پائے… مہمان خانے کی طرف بھاگا ہے، ہاں… اُدھر… وہ رہا۔‘‘ مَیں گھبرا کرتیزی سے اپنے کمرے کی طرف لپکا۔ میرا محافظوں کے آنے سے پہلےکمرے تک پہنچنا ضروری تھا۔ تبھی اندھیرے میں دوڑتا ایک ہیولا مجھ سے زور سے ٹکرایا اور اپنی ہی جھونک میں زمین پر گرگیا۔ اُس نے اٹھ کر دوبارہ بھاگنے کی کوشش کی، مگر مَیں نےاُس کی کلائی پر ہاتھ ڈال کر جھٹکادیا اور مضبوطی سے پکڑلیا۔ بھاگنے والے نےخود کو چھڑوانے کےلیے زور لگایا۔ 

اتنے میں مجھے اندھیرے میں اُس کے دوسرے ہاتھ میں چمکتی کوئی چیز نظر آئی۔ اگر مَیں آخری لمحے اُس کا وار اپنے دوسرے ہاتھ سے روک نہ لیتا، تو وہ خنجر سیدھا میرے سینے میں دل کے آرپار ہوتا۔ حملہ آور کی طاقت غضب ناک تھی اور اگلے ہی لمحے ہم دونوں ایک دوسرےسےالجھے فرش پر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔ تبھی محافظ راہ داری میں آن پہنچے اور کسی نے چِلّا کر ہمیں خبردار کیا ’’رُکو… ورنہ گولی چلا دوں گا۔‘‘ دوسرے گارڈ نے جلدی سے راہ داری کی لائٹ جلا دی، راہ داری روشنی سے نہا گئی اور تبھی مَیں نے حملہ آور کو خود سے اُلجھتے دیکھا۔ وہ بخت خان تھا، بخت خان ایک جھٹکے سےکھڑاہوگیا اور مجھ پر نظر پڑتے ہی اُس کے ہاتھ سےخنجرگرتےگرتےبچا۔ 

گارڈز اپنی بندوقیں تان کر اُسے چاروں طرف سے گھیرے میں لے چُکے تھے۔ مَیں نے غلط فہمی میں اپنے ہی یار کو پکڑوادیا تھا۔ مَیں اور بخت خان دونوں ہی بری طرح ہانپ رہے تھے۔ بخت خان حیرت سے ششدر کچھ کہتے کہتے رُکا ’’عبداللہ خاناں… تم…‘‘ مَیں نےآنکھوں آنکھوں میں اُسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ تبھی نواب تیمور اپنے خاص محافظوں کے ساتھ اپنی بندوق اٹھائے غصّے میں گرجتا برستا وہاں آن پہنچا۔ اُس کے پیچھے شہریار بھی دوڑا چلا آیا۔ ’’کس کی موت آئی ہے کہ اُس نے نواب تیمور کی جاگیر کی سرحد پار کرنے کی کوشش کی۔ کہاں ہے وہ، مَیں اُسے شکاری کتّوں کے سامنے ڈلوادوں گا ابھی۔ اور تم سب حرام خوروں کی کھال نہ کھنچوائی، تو میرا نام نہیں۔ 

یہ پہرہ دیتے ہو تم لوگ۔‘‘ نواب کے ہونٹوں سے غصّے کے مارے کف بہہ رہا تھا۔ چہرہ طیش اور غٗضب سے لال بھبھوکا تھا۔ وہ بخت خان کو مارنے کے لیے اُس کی طرف بڑھا۔ تبھی بخت خان نے اچانک پلٹ کر مجھے جھپٹ لیا اور اپنا خنجر میری شہ رگ پر رکھ کر غرّا کے بولا ’’خبردار! اگر کوئی آگے آیا…ہم اِس کا گلا کاٹ دے گا۔‘‘ نواب ٹھٹک کر رُک گیا۔ سارے محافظ بھی گھبرا کر ایک ایک قدم پیچھے ہٹ گئے۔ 

نواب غصّے سے چِلّایا ’’تم نے اگر میرے مہمان کے جسم پر ایک خراش بھی ڈالی، تو تمہارے اتنے ٹکڑے کروائوں گا کہ تمہاری پہچان مشکل ہوجائے گی۔‘‘ ماحول پر شدید تنائو طاری ہوچُکا تھا۔ مَیں اگر بخت خان کے سامنے نہ ہوتا، محافظ کب کے اپنی ساری گولیاں اس کے جسم کے پار کرچُکے ہوتے۔ مَیں نے نواب سے کہا۔ ’’اِس کی دشمنی مجھ سے ہے نواب صاحب۔ یہ مجھے مارنے کے لیے ہی یہاں آیا ہے۔ مَیں اس کی غلط فہمی دُور کرنا چاہتا ہوں۔ آپ لوگ کچھ دیر کے لیے ہمیں تنہا چھوڑدیں۔‘‘ نواب نے حیرت سے میری طرف دیکھا ’’یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ۔ ایک ڈاکو، لٹیرا آپ کی شہ رگ پر خنجر رکھے کھڑا ہے اور آپ ہمیں یہاں سے جانے کا کہہ رہے ہیں۔ 

یہ موقع پاتے ہی اپنا وار کرے گا۔‘‘ مَیں نے تحمّل سے سمجھانے کی کوشش کی۔ ’’یہ دونوں صورتوں میں اپنے ارادے سے باز نہیں آئے گا۔ پلک جھپکتے میں یہ دھار میرے نرخرے کے پار ہوسکتی ہے، لیکن اگر میں بات کروں، تو شاید اِسے میری وضاحت سمجھ آجائے۔مَیں آپ سےدرخواست کرتاہوں،اپنے محافظوں کو لے کر چلے جائیں یہاں سے۔ ویسے بھی اب یہ بھاگ کر کہیں نہیں جا سکتا۔ باہر آپ کا پہرہ تو موجود ہے۔‘‘ شہریار پَھٹی پَھٹی آنکھوں سے یہ ساری کارروائی دیکھ رہا تھا۔ نواب کچھ دیر کھڑا غصّےاور بےبسی سے تلملاتا رہا ۔ پھر بادل نخواستہ اپنے عملے کو وہاں سے چلے جانے کا اشارہ کیا۔ اور پھر خود بھی شہریار سمیت وہاں سے بھاری دل، تھکے قدموں کے ساتھ پلٹ گیا۔

بخت خان نے اُن کے اوجھل ہوتے ہی اپنا ہاتھ میری گردن سے ہٹا کر مجھے گلے لگانا چاہا، مگر مَیں نے اُس کا ہاتھ اپنے اُسی ہاتھ سے، جس سے بہ ظاہر اپنےبچائوکےلیےبخت کاہاتھ روک رکھاتھا، مضبوطی سے پکڑ کر خنجر کو اُسی جگہ رہنے دیا۔ میری آواز بہت دھیمی، سرگوشی نُما تھی۔ ’’اپنا ہاتھ ابھی مت ہٹانا بخت…اور مجھے دھکیلتے ہوئے سامنے کمرے میں لے جائو۔‘‘ بخت خان سمجھ گیا کہ مَیں یہ احتیاط کس لیے کررہا ہوں۔ ہوسکتا ہے، وہاں سے جانے کے باوجود کوئی میری حفاظت کی خاطر ہی سہی، ہماری نگرانی کررہا ہو۔ 

بخت خان نے میری ہدایت پر عمل کیا اور مجھے گھسیٹتے ہوئے کمرے کے کُھلے دروازے سے اندر لے جاکر دروازہ بند کردیا اور پھر بے اختیار مجھ سے لپٹ گیا۔ ’’کیا کرتا ہے مڑاں عبداللہ خان! ابھی ایک منٹ اور روشنی نہیں جلتا، تو ہمارا خنجر، خدانخواستہ… مگر شاباش ہے تم کو۔ تم نے بھی جوان کا بچّہ کی طرح ہم کو زبردست قابو کیا، بھاگنے نہیں دیا ہم کو۔‘‘ ہمارے پاس وقت بہت کم تھا۔ بخت خان نے مجھے بتایا کہ وہ دو دن پہلے مختلف بسیں اور سواریاں بدل بدل کر نواب پور پہنچ گیا تھا اور دو روز سے نواب کے محل کے اِردگرد پِھر کر علاقے کی ٹوہ بھی لیتا رہا اور میرا انتظار بھی کررہا تھا، مگر جب تیسری رات بھی مَیں وہاں نہیں پہنچا، تو بخت نے محل کی دیوار عقب سے ٹاپنے کا ارادہ کرلیا۔ 

اس میں بہت خطرہ تھا، لیکن بخت خان کے پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ اُس نے سوچ لیا تھا کہ کسی نہ کسی طرح نواب کی خواب گاہ تک پہنچ کر وہ اُس کی شہ رگ پر یہ قضا کا خنجر رکھ دے گا اور پھر جان بخشی کے بدلے مہرو کا پتا پوچھ کر ہی دَم لے گا۔ چاہے بدلے میں اُس کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ مگر اس سے چُوک ہوگئی اور وہ اپنے اندازے کے برعکس غلط جگہ سے محل میں کود گیا۔ محافظوں کو خبر ہوگئی اور وہ اُس کے پیچھے دوڑ پڑے۔ شور مچ گیا اور بخت خان محل کے رہائشی حصّے کے بجائے اس مہمان خانے کی طرف آنکلا اور یہاں اس کی مجھ سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ 

بخت خان نے آس پاس کمرے کو حیرت سے دیکھا اور میری سیاہ چادر ایک جانب پڑی دیکھ کر بولا ’’کمال ہے یارا… ہم تم کو باہر ڈھونڈ رہا تھا… اور تم اس نواب کے گھر میزبانی کررہا ہے… یہ چکّر کیا ہے خاناں…‘‘ مَیں نے مختصر الفاظ میں بخت خان کو اپنی رُوداد سنائی، مگر اب مسئلہ یہ تھا کہ اُس کو وہاں سے کیسے نکالا جائے۔ مَیں نے بخت سے کہا کہ وہ اپنا خنجر اور ریوالور میرے حوالے کردے اور میرے ساتھ باہر چلے۔ ہم دونوں آگے پیچھے محل کی انیکسی کی سیڑھیاں اتر کر نیچے ملحقہ بڑے ہال میں آئے، تو وہ سب ابھی وہیں جمع تھے۔ نواب اور شہریار تیزی سے میری طرف لپکے۔ 

محافظوں نے بخت پر بندوقیں سیدھی کرلیں۔ شہریار نےجلدی سے مجھ سے پوچھا ’’آپ ٹھیک تو ہیں ناں… اِس نے آپ کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچایا؟‘‘،’’نہیں، مَیں ٹھیک ہوں۔ آپ محافظوں کو یہاں سے جانے کا کہہ دیں نواب صاحب… مجھے آپ سےکچھ ضروری بات کرنی ہے۔‘‘ نواب نے چونک کر میری طرف دیکھا۔ مَیں نے آگے بڑھ کر بخت خان کا خنجر اور پستول دونوں نواب کے قدموں میں ڈال دئیے۔ بخت خان سرجُھکائےکھڑا رہا۔ نواب حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھا۔ ’’مگر یہ تو… آپ کی جان لینے کے درپے تھا۔‘‘ ’’یہ اب نہتّا ہے نواب صاحب!میری درخواست ہےکہ آپ یہ پہرہ ہٹا دیں۔‘‘

نواب نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور پھر گارڈز کو وہاں سےچلےجانےکوکہہ دیا۔ کچھ دیر بعد ہم صرف چار لوگ اس ہال میں باقی رہ گئے۔ مَیں نے ایک گہری سانس لے کر نواب کی طرف دیکھا ’’مَیں نے اپنےمجرم کو معاف کردیا ہےنواب صاحب… ہوسکے، تو آپ بھی اِسے معاف کردیں۔‘‘ نواب یہ سُن کر اچھل پڑا ’’کیا… مگر… اِس نے نواب تیمور کے گھر کی سرحد پار کی ہے۔ وہ سرحد، جو آج تک کسی دشمن توکیا، کسی دوست نے بھی بِنا میری اجازت پار کرنے کی جرأت نہیں کی۔ مَیں اتنے خطرناک دشمن کو ایسے جانے نہیں دوں گا۔ 

اِس نے میرے گھر کا رستہ دیکھ لیا ہے۔ کل کلاں یہ اپنے جیسے دو چار اور ڈکیت لے کر میرے گھر آگُھسا تو…؟‘‘ نواب کا خدشہ اپنی جگہ بالکل ٹھیک تھا۔ ’’آپ کی پریشانی اپنی جگہ درست ہے۔ یہ کوئی عام انسان نہیں، جان پر کھیل جانے والا دشمن ہے۔ مگر ایسے انسان کو مارنے سے بہتر ہے کہ اسے زندہ رکھا جائے۔ ہوسکتا، وہ آپ کے کسی کام آجائے۔ بہادر اور وفادار غلام کی کسے ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ ایک بار پھر سوچ لیں، تب تک چاہیں، تو اِسے یہیں کسی پرانے زنداں یا قید خانے میں ڈال دیں۔ قانون کے حوالے کریں گے، تو بھی محل کی بدنامی ہوگی۔‘‘ نواب کچھ دیر سوچتا رہا، پھر اُس نے اپنے کسی خادمِ خاص کو آواز دی۔ وہ دوڑتا ہوا اندر آیا، نواب تیمور نے اُس کے کان میں کچھ کہا۔ کچھ ہی دیر میں چار پانچ محافظ آئے اور بخت کو دھکیلتے وہاں سے لےگئے۔ نواب نےغورسےمیری طرف دیکھا ’’اب آپ بھی آرام کریں، رات بہت ہوگئی ہے۔ 

ہم صبح اس مسئلے پر بات کریں گے۔‘‘ مَیں دوبارہ اپنے کمرے میں آگیا، مگر میں نے یہ محسوس کرلیا کہ اب میری خواب گاہ کے گرد بھی پہرہ لگادیا گیا ہے۔ اب جانے یہ پہرہ میری حفاظت کے لیے تھا یا میری نگرانی کے لیے۔ صبح میرا ناشتا مجھے میرے کمرے ہی میں پہنچایا گیا اور ساتھ ہی یہ پیغام بھی ملا کہ نواب صاحب کسی ضروری کام سے جاگیر سے باہر گئے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ اُن کی واپسی تک میں یہیں قیام کروں۔ گویا میرا اندیشہ درست تھا۔ نواب کو مجھ پر بھی شک ہوگیا تھا اور اب وہ اپنا شک دُور کیے بِنا ہمیں یہاں سےجانے کی اجازت دینے پر آمادہ نہیں تھا۔ دن بھر شہریار میرے ساتھ اپنی تصویروں اور خوابوں کی باتیں کرتا رہا۔ 

اُسے بس یہ خوشی تھی کہ مَیں ابھی مزید کچھ روز کے لیے وہیں رُکا رہوں گا۔ مَیں نے شہریار سے بخت خان کے بارے میں پوچھا، مگر وہ لاعلم تھا۔ میرے ذہن میں ایک عجیب سا خیال آیا، ہوسکتا ہے نواب نے بخت کو بھی اِسی تہہ خانے یا زندان میں قید کیا ہو، جہاں کبھی مہرو قید تھی۔ اور کون جانے مہرو اب بھی انہی غلام گردشوں میں کہیں قید ہو اور بخت خان سے اس کی ملاقات ہوجائے۔ مَیں نےشہریارسےغیر محسوس طور پر یہ بات اچھی طرح کنفرم کرلی تھی کہ اِس وقت گھر میں شہریار، اُس کی ماں اور نواب تیمور کے علاوہ گھر کا کوئی چوتھا فرد کم از کم زنان خانے میں موجود نہیں تھا۔

وہ دن بھی گزر گیا، مگر نواب نے میری خبر نہیں لی۔ رات مَیں اپنی سوچوں میں گُم بیٹھا تھا کہ بخت خان کو یہاں سے نکالنے کی کیا ترکیب کی جائے کہ اچانک باہر کھٹکا سا ہوا۔ میری ساری حسّیات پَل بھر میں جاگ گئیں، پھر کسی نے دھیرے سےدروازے پر دستک دی۔ آنے والی کوئی بوڑھی خادمہ تھی، جس کی بات سُن کر تو میرا سر ہی چکرا گیا۔ ’’نواب خاتون کہتی ہیں کہ اس وقت نواب صاحب گھر پر نہیں ہیں۔ آپ کو مَیں محل کے پچھلی طرف کے ایک خفیہ راستے سے نکالنےکےلیےآئی ہوں۔ 

جلدی کیجیے۔ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں۔ شاید آپ نہیں جانتے۔ آپ کو یہاں قید کر لیا گیا ہے۔‘‘ مَیں نے فوراً خادمہ سے پوچھا۔ ’’میرے علاوہ بھی تو یہاں ایک اور قیدی ہے۔ کیا آپ کو اُس کا کچھ پتا ہے۔‘‘ خادمہ نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’محل کے کچھ حصّے ایسے ہیں، جہاں دن میں بھی کسی نوکر یا خادمہ کو جانے کی اجازت نہیں۔ آپ بس نکلنے کی کریں۔ پہرے میں یہ وقفہ بڑی مصیبت اور مشکل سے لایا گیا ہے۔ آپ کی جان کو یہاں خطرہ ہے۔‘‘ مَیں نے ایک گہری سانس لی۔ آپ جاکر نواب خاتون کو میری طرف سے بہت شکریہ کہیے گا۔ مگر میں یہاں سے نواب تیمور کی اجازت کے بغیر نہیں جائوں گا۔ اور اگر میری جان جانا یہیں طے ہے، تو مَیں اس سے بھاگ نہیں سکتا۔‘‘ خادمہ نےحیرت سےمیری طرف دیکھا اور پھر تیزی سے واپس پلٹ گئی۔ 

گویا کھیل شروع ہوچُکا تھا۔ اگلےدن ٹھیک وقت پرناشتا میرے کمرے میں پہنچادیا گیا، مگر مجھے بخت کی فکر کھائے جارہی تھی۔ نواب تیمور کے ظلم کے قصّے مجھے کمال صاحب سُناچکے تھے۔ اور جانے کمال صاحب کو میری اتنی لمبی غیرحاضری کی کیا توجیہہ دی گئی ہوگی۔ وہ بھی ضرور میرے لیے پریشان ہوں گے۔ صبح سے دوپہر اور دوپہر سے شام ہونے کو آئی۔ مَیں بیٹھے بیٹھے اُکتا گیا، تبھی مہمان خانے کے باہر کچھ ہلچل سی محسوس ہوئی اور کچھ ہی دیر میں نواب کا منیجر اصغر میرے کمرے میں داخل ہوا۔ ’’آپ کو بارہ دری کی جانب یاد کیا ہے نواب صاحب نے…‘‘ مَیں چُپ چاپ اصغر کے پیچھے چل پڑا۔ 

یہ وہی جگہ تھی، جہاں میری اور نواب تیمور کی پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ نواب اپنی مخصوص جگہ کسی گہری سوچ میں بیٹھا ہوا تھا۔ منیجر مجھے وہاں پہنچا کر پلٹ گیا۔ مَیں اپنی جگہ کھڑا رہا۔ نواب کو کچھ دیر بعد احساس ہوا کہ مَیں ابھی تک وہیں کھڑا ہوں، تو وہ گڑبڑا کر بولا ’’تشریف رکھیے… آپ بیٹھتے کیوں نہیں؟‘‘ مَیں نے کھڑے کھڑے ہی جواب دیا ’’قیدی کو بیٹھنے کے لیےکرسی پیش نہیں کی جاتی۔ بیڑیاں پہنائی جاتی ہیں، ہتھکڑیاں ڈالی جاتی ہیں۔ 

مجھے بھی اپنے قفس کا انتظار ہے۔‘‘ نواب نے غور سے میری طرف دیکھا اور اٹھ کرمیرے سامنے کھڑا ہوگیا۔’’کیسے قیدی ہیں آپ، جسے رہائی کی پیش کش ہوتی ہے، تو وہ قفس توڑ کر باہر نکلنے سے انکار کردیتا ہے۔‘‘ مَیں نے چونک کر نواب کی طرف دیکھا۔ ’’تو کیا رات آپ نے…؟‘‘ ’’ہاں،خادمہ کو مَیں نے ہی بھیجا تھا کہ وہ آپ کو یہاں سے فرار کی ترغیب دے، لیکن آپ کے پاس میرے لیےایک اور حیرت کدہ موجود تھا۔ کل سے لگاتار سوچ رہا ہوں کہ آخر آپ ہیں کون، جس نے چار دن میں میرے بیٹے کی کایا پلٹ دی۔ اب وہ ایک نیا انسان ہے۔ کل رات اُس نے مجھ سے اور اپنی ماں سے اپنے گزشتہ رویّے کی معافی مانگی، بلکہ آج سے اُس نے ہمیں پورا وقت دینا شروع کردیا ہے۔ آخر آپ نے اُس سے ایسا کیا کہا ہے۔ سُنا ہے کل وہ سارا دن آپ کے ساتھ ہی تھا؟‘‘ ’’مَیں نے ایسا کچھ کمال نہیں کیا۔ اُسے صرف اتنا یقین دلایا ہے کہ اُسے کوئی ذہنی عارضہ لاحق نہیں، اِس لیے اُسے آپ لوگوں یا باقی سب سے چُھپنے یا شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ 

آپ جانتے ہیں نواب صاحب اِس دنیامیں آدھے سے زیادہ دیوانےصرف اس لیےدیوانے ہیں کہ لوگ انہیں دیوانہ سمجھتے ہیں، ورنہ کون جانے، وہ آپ کو اگلے جہاں میں فرزانگی کے کس درجے پر فائز ملیں۔ آپ کا بیٹا بھی ایک کلاکار، آرٹسٹ ہے۔ آگے چل کر وہ آپ کی طرح ایک سخت گیر نواب یا کوئی اکھڑ جاگیردار تو شاید کبھی نہ بن پائے، مگر ایک بات کا یقین رکھیے، وہ ایک بہت اچھا انسان ضرور ثابت ہوگا۔ اِس معاشرے کے لیے ایک مفید فرد۔ اِس لیے آپ کو اسے اپنے نوابی چشمے سے دیکھنے کی عادت ترک کرنی ہوگی۔ یہ فیصلہ اب آپ کو کرنا ہے کہ آپ کو اپنا وارث ایک بڑا نواب، جاگیردار چاہیے یا آپ کا شہریار، جو دل کا نواب، اپنے مَن کا شہزادہ ہے۔‘‘

مَیں خاموش ہوا، تو نواب بھی بہت دیر تک خاموش کھڑا رہا۔ پھر اُس نے نظریں اُٹھائیں، تو اُن میں کئی سوال جھلک رہے تھے ’’آپ جانتے ہیں کل رات اگر آپ اس خادمہ کی بات مان کر کسی چور دروازے سےنکل جاتے، تو مَیں آپ کو تو جانے دیتا، لیکن اُس دوسرے شخص کو ضرور قتل کروا دیتا، جس کی جان بخشی کی درخواست آپ نے کی تھی۔ آپ دونوں کے درمیان کچھ تو مشترک ضرور ہے، مگر یہ کیا بہروپ ہے۔ 

مَیں سمجھ نہیں پایا۔ آپ ہی اپنی حقیقت بتادیجیے مجھے۔‘‘ مَیں نے ایک گہری سانس لی۔ ’’آپ نے ٹھیک پہچانا، ہم دونوں ہی بہروپیے ہیں، جو رُوپ بدل کر آگے پیچھے آپ کے اس محل میں آئے، مقصد البتہ ہم دونوں کا ایک ہی ہے۔‘‘ نواب نے بے چینی سےپہلو بدلا۔ ’’مَیں بھی پچھلے تین دن سے خود کو یہی تسلّی دے کر بہلانے کی کوشش کررہا تھا کہ آپ کوئی بہروپیے ہیں، جو اپنی کسی غرض سے اس محل میں آئے ہیں، مگر آج شام میرا یہ بہلاوا،بھرم بھی ٹوٹ گیا۔ مَیں نے اس محل کی تاریخ اور اس کی تعمیر سے لے کر آج تک کے تمام مکینوں کی تفصیلات نکوالی ہیں۔ میرے دادا کو یہ محل ریاست کی طرف سے ایک فتح کے عوض تحفے کے طور پر دیا گیا، اس سے پہلے یہ مختلف امراء کے زیرِ استعمال رہا۔ 

انہی میں سے ایک وہ ہندو خاندان بھی ہے، جس کی تفصیلات آپ نے مجھے اُس دن بتائی تھیں۔ اُسی ہریش چند نے یہ محل اپنی لاڈلی بیٹی بملا کی محبت میں بنایا تھا، کیوں کہ اُسے یہاں بالکونی میں کھڑے رہ کر دُور بہتی نہر اور جنگل کا نظارہ کرنا بہت پسند تھا۔ اُس کا محبوب منگیتر کسی جنگ میں مارا گیا اور پھر اُسے کچھ سال بعد اُس کی مرضی کے بغیر مجبوراً کسی اور جاگیردار کے بیٹےسےبیاہ دیا گیا۔ 

آپ نے جو کچھ اس خاندان کے بارے میں بتایا تھا، وہ سب حرف بہ حرف سچ ثابت ہوا۔ اور آج مَیں نے زندگی میں پہلی مرتبہ شہریار کے کمرے میں، اُس کی غیر موجودگی میں جاکر اُس کی بنائی تصویریں دیکھیں، تو وہ انہی لمحوں کو پینٹ کرتا آیا ہے، جو کبھی اس محل کا کرب ناک ماضی تھا۔ مَیں بہت الجھ کر رہ گیا ہوں، یہ سب کیا ہےآخر؟‘‘، ’’بات بہت لمبی ہے نواب صاحب، بس اتنا جان لیجیے کہ آپ کے بیٹے کو قدرت نے سوچ، تخیّل اور بصارت اوروں سے بڑھ کر دی ہے۔ ہوسکتا ہے، اُس نے بملا کی یہ کہانی آپ سے بھی پہلے بچپن میں محل کے کسی بزرگ نوکر، نوکرانی سے سُن رکھی ہو اور وہ اس کے لاشعور میں ایسی اٹکی ہو کہ اب وہ ان سب تخیّلات کو اپنی تصویروں میں اتارکر سُکون محسوس کرتا ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ واقعی اُسے یہ سب کچھ کسی خاص لمحے میں دکھائی دیتا ہو۔ 

عام انسان اپنی ظاہری آنکھ سے جو دیکھتا ہے، صرف اُسی پریقین کربیٹھتاہے۔ ہوسکتاہے، قدرت نے شہریار کی باطنی آنکھ کا پردہ بھی ہٹادیا ہو۔ یہ کوئی اَن ہونی نہیں۔ مَیں تو کہوں گا کہ آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کا بیٹا نیک اور اس قدر حسّاس ہے۔‘‘ نواب کے چہرے پر چھایا تنائو کم ہونے لگا۔ ’’اگر ایسا ہی ہے، تو پھر مَیں آپ کا مقروض ہوں۔ ایک بیٹے کو اُس کے ماں باپ سے ملانے کے عوض مَیں آپ کے لیے کیا کرسکتا ہوں۔ وہ کیا غرض ہے، جس کے لیے آپ اور وہ شخص یہاں آئے ہیں۔ ظاہر ہے سونا چاندی، ہیرے موتی یا زر و جواہر تو آپ کا مقصد ہو نہیں سکتے، کیوں کہ آپ واقعی ایک جوگی فقیر ہیں۔ پھر کیا چاہیے آپ کو مجھ سے۔ آپ صرف نام لیں۔ مَیں پیش کردوں گا، چاہے دنیا کی کتنی ہی بڑی نعمت کیوں نہ ہو۔‘‘

مَیں نے غور سے نواب کی طرف دیکھا۔ ’’مجھے رحیم گڑھ کی مہرو واپس کردیں۔ وہی مہرو، جسے آپ چندا کے ٹھکانے سے اِک روز خرید لائے تھے۔‘‘ نواب نے تڑپ کر میری طرف دیکھا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین