• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور دُنیا کا دوسرا آلودہ ترین شہر کیسے بنا؟

گرچہ اس وقت ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کے تدارک کی خاطر دُنیا بھر میں ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں، مگر بد قسمتی سے پاکستان میں اس حوالے سے مربوط و مؤثر کوششیں نہیں ہو پار ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایئر کوالٹی انڈیکس میں لاہور دُنیا کا دوسرا آلودہ ترین شہر ہے۔ 

ایئر کوالٹی انڈیکس کے اعداد و شمار منظرِ عام پر آنے کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے شہر میں ماحولیاتی آلودگی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے 27دسمبر تک واٹر کمیشن سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ عدالتِ عالیہ کے سامنے ڈائریکٹر جنرل، ماحولیات نے تسلیم کیا کہ آلودگی کے خاتمے کے لیے کیے گئے اقدامات ناکافی ہیں۔ اس موقعے پر انہوں نے فصلیں جلائے جانے کے عمل اور صنعتوں اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں کو ماحولیاتی آلودگی کا سبب قرار دیا۔ گرچہ لاہور ہائی کورٹ نے شہر میں آلودگی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، لیکن دوسری جانب اس معاملے میں پنجاب حکومت کی عدم دل چسپی کا عالم یہ ہے کہ محکمۂ تحفّظِ ماحولیات کی اینٹی اسموگ کمپین کے لیے صرف اسکواڈز ہی بنائے جارہے ہیں، جن میں غیر سنجیدہ افسران تعینات ہیں۔ 

اس پر مستزاد یہ کہ وفاقی و صوبائی حکومت نے ایئر کوالٹی انڈیکس کی رپورٹ پر توجّہ دینے کی بہ جائے اسے یک سر مسترد کر دیا، جب کہ اس سے بھی زیادہ حیران کُن اَمر یہ ہے کہ وزیرِ مملکت برائے ماحولیاتی تبدیلی، زرتاج گُل نے 2نومبر کو گزشتہ برس امریکی خلائی تحقیقی ادارے، ’’ناسا‘‘ کی جانب سے جاری کی گئی تصویر کے ساتھ یہ ٹویٹ کی کہ ’’بھارت میں فصلیں جلانے سے (پاکستان میں) آلودگی پیدا ہوتی ہے۔‘‘ لہٰذا، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ حکومت ماحولیاتی آلودگی میں کمی لانے کی بہ جائے بھارت پر الزامات عاید کر کے بری الذمہ ہونا چاہتی ہے۔ ’’سیکٹورل ایمیشن انوینٹری فار پنجاب‘‘ کی رپورٹ کے مطابق، فضائی آلودگی کا سب سے بڑا سبب ٹرانسپورٹ سیکٹر ہے۔ 

اس سیکٹر سے 45فی صد، جب کہ صنعتوں سے 25فی صد اور زرعی شعبے سے 20فی صد آلودگی پیدا ہوتی ہے اور فضائی آلودگی بڑھنے ہی کی وجہ سے اسموگ میں اضافہ ہوتا ہے۔ دوسری جانب ایگری کلچر ڈیپارٹمنٹ اور یونائیٹڈ نیشنز فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن کی جانب سے اسموگ سے متعلق مرتّب کی گئی رپورٹ میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ موسمِ سرما میں مغربی سمت سے ہوا چلتی ہے، لہٰذا بھارت سے فصلیں جلانے کے نتیجے میں پیدا ہونے والا دُھواں آنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔

تاہم، یہ حقیقت سامنے آنے کے باوجود کہ اسموگ کا اہم سبب گاڑیوں کا دُھواں ہے، پنجاب حکومت نے لاہور میں دُھواں خارج کرنے والی گاڑیوں کے خلاف کارروائی کے لیے 15نومبر تک محض 4افراد پر مشتمل دو اسکواڈز قائم کیے تھے، جن میں3کلرکس اور صرف ایک انسپکٹر شامل تھا، جب کہ گاڑیوں کی فِٹ نیس صرف تربیت یافتہ انسپکٹرز ہی چیک کر سکتے ہیں۔ یعنی پورے لاہور شہر کی گاڑیوں کی فِٹ نیس چیک کرنے کے لیے اسکواڈ میں صرف ایک انسپکٹر شامل کیا گیا تھا، جس کے نتائج ایئر کوالٹی انڈیکس کی رپورٹ کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں ۔یہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد جب پورے مُلک میں شور مچا، تو نیا اسکواڈ تشکیل دیا گیا۔

پنجاب میں ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے لیے محکمۂ تحفّظِ ماحولیات قائم ہے۔ یہ محکمہ آلودہ پانی اور مختلف اقسام کے کچرے، فُضلے پر قابو پانے کے علاوہ آبادی کوبی ٹی ایس یا بَیس ٹرانس سِیور اسٹیشن ٹاورز سے خارج ہونے والی ریڈیائی لہروں سے بچانے کا بھی ذمّے دار ہے۔ تاہم، لاہور میں متعدد مقامات پر آبادی کے عین وسط میں یہ ٹاورز نصب ہیں، جب کہ پابندی کے باوجود غیر معیاری پلاسٹک سے شاپنگ بیگز بھی تیار کیے جا رہے ہیں۔ مذکورہ محکمے کے تحت صنعتوں اور اسپتالوں سے کچرے اور فضلے کے اخراج کی نگرانی کے لیے بھی اسکواڈز قائم کیے گئے ہیں، لیکن ان کی کارکردگی صفر ہے۔ اسی طرح محکمے کا انسدادِ ڈینگی اسکواڈ موجود ہونے کے باوجود ہر برس ڈینگی سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 

لاہور میں آلودگی اور اسموگ میں اضافے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ محکمۂ تحفّظِ ماحولیات کے انسپکٹرز اور دیگر عملہ ایمان داری سے اپنے فرائض انجام نہیں دے رہا۔ متعدد انسپکٹرز برسوں سے ایک ہی ضلعے میں تعینات ہیں اور ان میں نان کوالیفائیڈ انسپکٹرز بھی شامل ہیں۔مذکورہ محکمے کے انسپکٹرز اور فیلڈ اسٹاف آلودگی کے خاتمے کی بہ جائے چھوٹے بڑے صنعتی یونٹس اور دیگر اداروں سے رشوت لے کر ’’ثالثی‘‘ کروانے میں مصروف ہے اور اس ثالثی کی وجہ سے نوبت قتل و غارت تک جا پہنچی ہے۔ 

حال ہی میں لاہور میں پانچ بچّوں کے باپ کے قتل کا واقعہ پیش آیا ہوا۔ عینی شاہدین کے مطابق، اس واقعے میں مذکورہ محکمے کا فیلڈ اسسٹنٹ ملوّث ہے، جس نے آلودگی پھیلانے والے کارخانے بند کروانے کی بجائے مالکان سے رشوت بٹوری تھی۔ فائرنگ کے نتیجے میں ایک پولیس اہل کار سمیت دیگر افراد زخمی بھی ہوئے۔ جب اس واقعے کی اطلاع محکمۂ تحفّظِ ماحولیات کے ایک اعلیٰ افسر کو ملی، تو اُس نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے معاملہ رفع دفع کروا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ملزم آج بھی بے خوف و خطر ’’خدمات‘‘ انجام دے رہا ہے۔ 

محکمے کا عملہ آلودگی پھیلانے والے صنعتی یونٹس کو نوٹسز تک جاری نہیں کرتا اور اگر کسی کو نوٹس جاری بھی کیا جاتا ہے، تو کارروائی کی بجائے’’ کچھ لے دے کر‘‘ معاملہ نمٹا دیا جاتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہی صورتِ حال برقرار رہی، تو پھر شہر سے آلودگی کیسے ختم ہو گی؟ نام شایع نہ کرنے کی شرط پر ایک صنعتی یونٹ کے نمایندے نے ’’جنگ‘‘ کو بتایا کہ ’’اب ریٹ بڑھ گئے ہیں اور 35ہزار روپے والا کام 2لاکھ روپے میں ہو رہا ہے۔‘‘ اسی طرح ایک شکایت کنندہ کا کہنا تھا کہ حال ہی میں اُس نے ایک آلودگی پھیلانے والی فیکٹری کی شکایت درج کروائی، تو متعلقہ انسپکٹر نے ’’ثالثی‘‘ کرواتے ہوئے معاملہ نمٹا دیا۔ اسی طرح ایک انسپکٹر نے، جس کے خلاف اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ میں ایک سے زاید مقدّمات درج ہیں اور انکوائری بھی جاری ہے، ایک صنعتی یونٹ سے 2لاکھ روپے رشوت طلب کی تھی اور مطلوبہ رقم ادا نہ کرنے پر فیکٹری سِیل کرنے کی دھمکی دی تھی۔ تاہم، مذکورہ انسپکٹر تا حال ڈیوٹی پر ہے۔

عام طور پربڑے صنعتی یونٹس میں آلودگی پر قابو پانے کے لیے انسولیٹرز نصب کیے جاتے ہیں، جن کی وجہ سے صنعتوں سے خارج ہونے والے دھویں سے مضرِ صحت اجزا الگ ہو جاتے ہیں۔ گرچہ متعلقہ محکمے کے انسپکٹرز اور دیگر عملہ بڑی صنعتوں کی انسپکشن تو کرتا ہے، مگر گلی محلوں میں قائم چھوٹے یونٹس کی چھان بین نہیں کی جاتی اور نہ ہی انہیں آلودگی کی روک تھام پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اسی طرح پنجاب کے مختلف علاقوں میں آبادیوں کے ارد گرد ہی پولٹری فارمز بنائے گئے ہیں، جن سے اُٹھنے والی بد بُو کی وجہ سے مقامی باشندے اذیّت میں مبتلا ہیں۔ 

نیز، ٹیکسٹائل ملز اور رائس فیکٹریز سے نکلنے والے مضرِ صحت پانی کی نکاسی نالوں اور نہروں میں ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے انسانوں کے علاوہ جانور بھی شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب اینٹوں کے بَھٹّوں اور اسٹون کرشنگ یونٹس سے خارج ہونے والے دُھویں کو روکنے کے لیے بھی کوئی مؤثر اقدامات نہیں کیے جا رہے اور ان کی وجہ سے بھی فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دیگر عوامل کے علاوہ محکمۂ تحفّظِ ماحولیات کے عملے کو آلودگی پر قابو پانے کے لیے تربیت بھی فراہم نہیں کی جا رہی۔ واضح رہے کہ جرمنی میں تحفّظِ ماحولیات کا محکمہ صرف ماحولیاتی پالیسی بناتا ہے، جب کہ بلدیاتی حکومت اس پر عمل درآمد کرواتی ہے۔ 

لہٰذا، اگر لاہور میں بھی ماحولیاتی تحفّظ کے لیے مقامی حکومت کے مختلف شعبوں کو متحرک کیا جائے، تو محکمے میں کرپشن کے خاتمے کے ساتھ اس کی کارکردگی میں بھی بہتری لائی جا سکتی ہے۔ گرچہ لاہور میں آلودگی کے خاتمے کے لیے ایک باقاعدہ شکایتی سیل قائم ہے، لیکن اس کا عملہ عموماً شکایات نظر انداز کر دیتا ہے اور اگر پنجاب انوائرمینٹل ٹربیونل میں کوئی مقدّمہ پہنچ بھی جائے، تو برسوں تک اس کی سماعت نہیں ہوتی ۔ اس دوران صنعتی یونٹس آلودگی پھیلانے میں مصروف رہتے ہیں۔ یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ محکمے کا فیلڈ اسٹاف جُز وقتی طور پر کنسلٹنٹ یا صلاح کار کی خدمات بھی انجام دیتا ہے اور مقدّمے کو لٹکانے کے عوض باقاعدہ کمیشن وصول کرتا ہے۔

گزشتہ دنوں پنجاب حکومت نے اسموگ میں کمی کے لیے اینٹوں کے بَھٹّوں کو یکم نومبر سے یکم جنوری تک بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ البتہ زِگ زیگ ٹیکنالوجی استعمال کرنے والے بَھٹّوں کو اس پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا کہ ان کی وجہ سے آلودگی نہیں پھیلتی، مگر بَھٹّہ مالکان نے عدالت سے حکمِ امتناع لے لیا اور اس وقت پورے پنجاب ہی میں اینٹیں تیار کی جا رہی ہیں اور بَھٹّہ مالکان کو متعلقہ محکمے کی اَشیر باد و پُشت پناہی حاصل ہے۔ 

دوسری جانب بوائلرز اور ہیوی جنریٹرز اپنے دُھویں اور شور کی وجہ سے فضائی آلودگی کے ساتھ صوتی آلودگی کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ اسی طرح جلائے گئے کچرے کے دُھویں سے پیدا ہونے والی آلودگی پر بھی کسی کی توجّہ نہیں۔ علاوہ ازیں، ان دنوں گیس کی قلّت کی وجہ سے ایندھن کے طور پر لکڑی اور مٹی کا تیل استعمال کیا جا رہا ہے، جس سے اسموگ میں اضافہ ہو رہا ہے، جب کہ اسموگ میں اضافے کا ایک اہم سبب صنعتوں میں استعمال ہونے والا غیر معیاری تیل بھی ہے۔ 

نیز، اس کے دُھویں سے انسانی صحت پر بھی مُضر اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام میں درخت اہم کردار ادا کرتے ہیں، جب کہ مُلک کے بڑے شہروں میں ہریالی کی کمی کے باوجود جنگلات اور درختوں کی کٹائی کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی طرح ماحولیاتی آلودگی کی پیمائش کرنے والے جدید آلات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں، جس کی وجہ سے اسموگ کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے اور ہم سارا ملبہ بھارت پر ڈال کر اپنی ذمّے داریوں سے جان چُھڑوا رہے ہیں۔

لاہور کو دُنیا کا دوسرا آلودہ ترین شہر قرار دیے جانے اور اسموگ میں اضافے کے حوالے سے ماحولیاتی امور پر گہری دسترس رکھنے والے رافع عالم کہتے ہیں کہ ’’چوں کہ ہمارے ہاں موسمِ سرما میں لکڑی اور کوئلہ جلانے کا رجحان بڑھ جاتا ہے، چناں چہ اس سیزن میں فضائی آلودگی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے اور یہ اسموگ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اگر ہمیں اسموگ پر قابو پانا ہے، تو اس کے لیے سال بھر مستقل مزاجی سے کام کرنا ہو گا۔ فضائی آلودگی کا سب سے بڑا سبب گاڑیوں کا دُھواں ہے اور اسموگ میں کمی کے لیے ہمیں توانائی کے ذرایع بھی بدلنا ہوں گے۔‘‘اُن کا مزید کہنا تھا کہ’’ گرچہ موجودہ حکومت نے اسموگ کے خاتمے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے، مگر متعلقہ محکموں کے پاس استعداد کی کمی ہے۔ 

ان کے پاس گاڑیاں ہیں، نہ افرادی قوّت اور نہ ہی فضائی آلودگی جانچنے کے لیے استعمال ہونے والے جدید آلات۔ سو، ان حالات میں ان سے مطلوبہ کارکردگی کی توقّع رکھنا عبث ہے۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو عارضی اقدامات کی بجائے آلودگی کے خاتمے کے لیے طویل المدّت پالیسی بنانی چاہیے اور اس پر سختی سے عمل درآمد بھی کروانا چاہیے، ورنہ اسموگ کے علاوہ آلودگی سے پیدا ہونے والے مختلف امراض سے پر قابو پانا بھی ممکن نہ ہو گا۔ 

اسموگ کے خاتمے کے لیے ہمیں کسی ایک ادارے پر انحصار نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اس حوالے سے قانون سازی کے ساتھ عوام کو تربیت بھی فراہم کرنی چاہیے۔ یاد رہے کہ ماحول میں پائی جانے والی کثافتیں کسی زہر سے کم نہیں اور ان سے بچائو کے لیے ہمیں حفظانِ صحت کے اصولوں پر بھی عمل کرنا ہو گا۔ گرچہ ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ایک تشویش ناک اَمر ہے اور اس کی وجہ سے انسانی جانوں کو خطرات لاحق ہیں، لیکن تحفّظِ ماحولیات کے ذمّے دار محکمے کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ اس محکمے کے پاس اپنی عمارتیں تک نہیں اور اس کی لبیارٹری کم و بیش گزشتہ 5برس سے غیر فعال ہے، تو ایسی صورت میں آلودگی اور اسموگ میں کیسے کمی واقع ہو سکتی ہے۔‘‘

تازہ ترین