• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غزوہ اَبواء یا وَدّان

صفر2 ہجری، اگست 623ء

یہ پہلا غزوہ ہے، جس میں اللہ کے رسولﷺ خود بنفسِ نفیس شریک ہوئے۔ ہجرت کا گیارہواں مہینہ تھا۔ حضورﷺ نے مدینہ منوّرہ میں حضرت سعد بن عبادہؓ کو اپنا قائم مقام مقرّر فرمایا اور 70 مہاجرین صحابہؓ کے ساتھ اِس مہم پر روانہ ہوئے۔ اس قافلے کا پرچم سفید تھا اور حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ عَلم بردار تھے۔ آپﷺ مدینہ منوّرہ سے80میل دُور ’’اَبواء‘‘ کے مقام پر پہنچے، جہاں آپﷺ کی والدۂ ماجدہ کا مزارِ مبارک ہے اور یہ مدینہ منوّرہ کی آخری سرحد بھی ہے۔ وہاں سے مزید چھے میل کا سفر طے کرکے’’ وَدّان‘‘ تک بھی گئے، لیکن کفّارِ مکّہ سے جنگ کی نوبت نہیں آئی۔ اُس زمانے میں وہاں قبیلہ بنی ضمرہ آباد تھا۔ 

آپﷺ نے وہاں قیام فرما کر قبیلے کے سردار، مخشی بن عمرو الضمری سے ایک معاہدہ کیا، جس کے الفاظ یہ تھے ’’یہ بنو ضمرہ کے لیے(حضرت) محمّد رسول اللّٰہﷺ کی تحریر ہے۔ ان لوگوں کی جان اور مال محفوظ رہے گا۔ یہ ہم سے لڑیں گے اور نہ ہم ان سے لڑیں گے۔ جو شخص ان پر حملہ کرے گا، اس کے مقابلے میں ان کی مدد کی جائے گی اور پیغمبرﷺ جب انھیں مدد کے لیے بلائیں گے، تو ان کی مدد کے لیے جانا ہوگا۔‘‘ اس تحریری معاہدے کے بعد آپﷺ واپس مدینہ منوّرہ روانہ ہوگئے۔ اس طرح اس پہلے غزوے میں آپﷺ پندرہ دن مدینہ منوّرہ سے باہر رہے۔

غزوۂ بُواط

ربیع الاوّل 2ہجری، ستمبر 623ء

ہجرت کا تیرہواں مہینہ تھا۔ حضور نبی کریمﷺ نے حضرت سعدبن معاذؓ کو مدینہ منوّرہ کا امیر مقرّر فرمایا اور 200 مہاجرین صحابہؓ کے ساتھ قریشِ مکّہ کے اُس قافلے کو روکنے کے لیے تشریف لے گئے، جس میں اُمیّہ بن خلف کے ساتھ 100 افراد اور ڈھائی ہزار اونٹ تھے۔ آپﷺ کوہِ رضویٰ کے اطراف میں ’’بُواط‘‘ کے مقام پر پہنچے۔ بُواط، جہینہ کے پہاڑی سلسلے میں مکّہ مکرّمہ سے شام جانے والی شاہ راہ سے متصل اور مدینہ منوّرہ سے 48 میل کے فاصلے پر ہے۔ یہاں بھی جنگ کی نوبت نہیں آئی اور حضورﷺ واپس مدینہ منوّرہ تشریف لے گئے۔ اس مہم کا پرچم سفید تھا اور حضرت سعدبن ابی وقاصؓ عَلم بردار تھے۔

غزوۂ سفوان

ربیع الاوّل 2ہجری، ستمبر 623ء

اس غزوے کی وجہ یہ تھی کہ ربیع الاوّل کے مہینے میں کرز بن جابر فہری نے، جو مکّہ کے رئوسا میں سے تھا، مشرکین کی ایک مختصر فوج کے ساتھ مدینہ منوّرہ کے مسلمانوں کی چراگاہ پر حملہ کیا اور جانور ہنکا کر لے گیا۔جب نبی کریمﷺ کو اس واقعے کی اطلاع ملی، تو آپﷺ نے مدینہ منوّرہ کی امارت، حضرت زیدبن حارثہؓ کو سونپی اور فوری طور پر 70صحابہ کرامؓ کو ساتھ لے کر فہری کے تعاقب میں روانہ ہوگئے۔ آپﷺ اُسے تلاش کرتے ہوئے بدر کے نواح میں’’وادیٔ سفوان‘‘ تک تشریف لے گئے، لیکن کرز اور اُس کے ساتھی وہاں سے جا چُکے تھے۔

لہٰذا، آپﷺ واپس مدینہ منوّرہ تشریف لے آئے۔ بعد میں کرز بن جابر مسلمان ہوگئے تھے اور فتحِ مکّہ کے موقعے پر مشرکین نے اُنھیں راہ میں تنہا پا کر شہید کر دیا تھا۔ دراصل، مسلمانوں کے تجارتی قافلوں کو لُوٹنا اور اُن کے مویشیوں کو ہنکا کر لے جانا مشرکین کے لیے عام سی بات تھی۔ اِسی لیے رسول اللہﷺ نے سرایا اور غزوات کا سلسلہ شروع فرمایا تاکہ قریش لُوٹ مار جیسی حرکتوں سے باز آجائیں۔ نیز، اُنھیں یہ احساس بھی ہو جائے کہ مسلمان اُن کی اِن مذموم سرگرمیوں کا پوری قوّت سے جواب دے سکتے ہیں۔

غزوہ ذی العشیرہ

جمادی الآخر 2 ہجری، دسمبر 623ء

ہجرت کا سولہواں مہینہ تھا۔ کفّارِ مکّہ نے مدینہ منوّرہ پر بھرپور حملہ کر کے مسلمانوں کو مکمل طور پر ختم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ جنگ کے اخراجات، سامانِ حرب وغیرہ کی خریداری کے لیے طے کیا گیا کہ ایک بڑا تجارتی قافلہ مُلکِ شام روانہ کیا جائے گا اور اس قافلے میں مکّے کا ہر خاندان اپنا حصّہ ڈالے گا تاکہ زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جا سکے۔ 

قریش کے سرداروں نے اسے اپنے دیوتاؤں کی بقاء کی جنگ قرار دیتے ہوئے مذہبی رنگ دے دیا، چناں چہ قریش کے ہر گھر نے اس تجارتی قافلے میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر حصّہ لیا۔ یہ قافلہ ابوسفیان کی قیادت میں مُلکِ شام روانہ ہوا۔ نبی کریمﷺ کو جب قریش کے مذموم عزائم کی اطلاع ملی، تو آپﷺ نے دو سو مہاجرین پر مشتمل ایک لشکر ترتیب دیا، جس میں سب اپنی رضامندی سے شامل ہوئے تھے۔ اس لشکر کے پاس سواری کے لیے صرف تیس اونٹ تھے، جن پر لوگ باری باری بیٹھتے ۔

آپﷺ نے مدینہ منوّرہ کے انتظامی معاملات حضرت ابوسلمہؓ بن عبدالاسد مخزومی کے سُپرد کیے۔اس لشکر کا پرچم سفید تھا اور حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ؓعَلم بردار تھے۔ رسول اللہﷺ شاہ راہِ شام کے مدّ مقابل’’ ذی العشیرہ‘‘ کے مقام پر پہنچے، جو مدینہ منوّرہ سے 108 میل کی مسافت پر واقع ہے۔ یہاں آ کر معلوم ہوا کہ قافلہ تو چند روز قبل ہی یہاں سے نکل چُکا ہے۔ یہ وہی قافلہ تھا، جو شام سے واپسی پر مسلمانوں سے بچ کر سمندر کے کنارے کنارے ہوتا ہوا مکّہ پہنچ گیا تھا، لیکن اس کے باوجود، ابوجہل نے چڑھائی کی اور جنگِ بدر وقوع پذیر ہوئی۔ اس غزوے میں آپﷺ نے بنو مدلج سے بھی امن معاہدہ کیا۔

’’ابو تُراب‘‘

غزوۂ ذی العشیرہ ہی میں ایک موقعے پر رسول اللہﷺ نے حضرت علی المرتضیٰؓ کو’’ ابوتُراب‘‘ کہہ کر پکارا۔ آپﷺ نے حضرت علیؓ کو اِس حالت میں سوتے دیکھا کہ وہ غبار آلود تھے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ’’اے ابوتُراب! اب بیٹھ جائو‘‘ اور وہ اُٹھ کر بیٹھ گئے(طبقات ابنِ سعد)۔

’’سالارِ کارواں ہے، میرِ حجازؐ اپنا‘‘

اب تک ہم چار غزوات اور تین سرایا کے بارے میں پڑھ چُکے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ ان ساتوں واقعات میں جنگ ہوئی اور نہ ہی کُشت و خون۔ کسی قافلے کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ دراصل، رسول اللہﷺ کی پوری کوشش تھی کہ پورے عرب میں امن و امان قائم ہو جائے۔ اسی لیے اِن تمام مہمّات کا بنیادی مقصد کفّارِ مکّہ اور دیگر مشرکین و منافقین کو یہ باور کروانا تھا کہ اگر مسلمانوں پر تشدّد، اُن کے اموال و اسباب کو لُوٹنا اور جنگ کا خیال تَرک نہ کیا گیا، تو مسلمان بھی اپنے دفاع میں جوابی کارروائی کے طور پر نہ صرف اُن کے تجارتی راستے بند کر سکتے ہیں، بلکہ ہر طرح کی شرانگیزی کا بھرپور جواب بھی دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ 

یہود و نصاریٰ، مشرکین و منافقین اور متعصب اہلِ مغرب اِن مثبت مہمّات کو منفی رنگ میں پیش کر کے یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ’’ مسلمان قافلوں میں لُوٹ مار کرتے تھے۔‘‘ درحقیت، یہ نہایت احمقانہ اور جاہلانہ سوچ ہے۔ سات مہمّات کے دَوران خون کا ایک قطرہ بھی نہ گرنا اور ان سب قافلوں کا مدینہ منوّرہ کے پہلو سے صحیح سالم گزر جانا، مسلمانوں کی امن پسندی کا کُھلا ثبوت ہے۔ اسلام، امن و سلامتی کا دین ہے، جو مسلمانوں اور خاص طور پر رسول اللہﷺ کے مکارمِ اخلاق، برداشت، معافی، درگزر اور حقوق العباد کی بھرپور ادائی کے باعث دُنیا میں پھیلا۔ 

شریعتِ اسلامی میں کسی کا ناحق خون بہانا یا کسی کا مال و اسباب کسی بھی حیلے سے لُوٹ لینا سخت ترین گناہ ہے۔ صحابہ کرامؓ، رسول اللہﷺ کے وہ عظیم رفقاء تھے، جو خود بھوکے رہ کر دُوسروں کو کِھلاتے۔ اسلامی تاریخ اِس طرح کے بے شمار واقعات سے بَھری پڑی ہے اور خود غزوۂ بدر کے قیدی اِس کے گواہ ہیں۔ حضرت محمدﷺ، رحمتُ اللعالمین اور محسنِ انسانیت ہیں۔ آپﷺ سارے عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے، آپﷺ نبوّت کے اعلان سے پہلے ہی صادق و امین کے طور پر معروف تھے۔ مکّے کے باشندے آپﷺ کی دیانت ، صداقت اور پاکیزہ زندگی کی قسمیں کھایا کرتے تھے۔ 

ایک طرف مشرک سردار جان کے دُشمن ہیں، شہید کرنے کے لیے گھر کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں، لیکن دوسری طرف، اُن کے نزدیک اپنے ہیرے جواہرات، سونا چاندی، مال و متاع کی حفاظت کے لیے پورے عرب میں حضرت محمدﷺ سے زیادہ قابلِ اعتماد، قابلِ بھروسا اور امانت دار کوئی دُوسرا نہیں۔ امین و صادق بھی ایسے کہ دروازے پر دُشمن سَر قلم کرنے کے لیے کھڑے ہیں، لیکن اپنی جان کی بجائے دُشمنوں کے مال و اسباب کی حفاظت کی فکر ہے۔ 

حضرت علیؓ سے فرماتے ہیں’’ علیؓ دیکھو! ان سب کے گھروں پر جا کر ان کی امانتیں اُنھیں واپس کرنا اور دیکھو! اُس وقت تک مدینے نہ آنا، جب تک سب کی امانتیں لَوٹا نہ دو۔‘‘ہم اور ہمارے ماں باپ اس عظیم ہستی پر قربان کہ جو مظلوموں، مسکینوں، بے کسوں، غریبوں، یتیموں اور بیوائوں کا سہارا بنی۔ ظالموں، جابروں اور اللہ کے دُشمنوں سے ان مظلوموں کے لیے جنگ کی۔

سَرِیّہ حضرت عبداللّٰہ بن جحشؓ

رجب2ہجری، جنوری 624ء

ہجرت کا 17 واں مہینہ تھا۔ رسول اللہﷺ نے حضرت عبداللہ بن جحشؓ کی امارت میں بارہ مہاجرین پر مشتمل ایک دستہ’’ بطن نخلہ‘‘ کی جانب روانہ کیا،جو مکّہ مکرّمہ اور طائف کے درمیان ابنِ عامر کا ایک باغ تھا۔ آپﷺ نے امیرِ سَرِیّہ کو ایک خط بھی دیا اور فرمایا کہ’’ اسے دو دن بعد کھول کر پڑھنا۔‘‘ حضرت عبداللہؓ نے حسبِ ہدایت دو دن بعد خط پڑھا، تو اُس میں لکھا تھا کہ’’ تم نخلہ کے مقام پر رُکو اور قریش کے قافلے کے بارے میں آگاہی حاصل کرو۔‘‘ یہاں بھی مقصد یہی تھا کہ کفّار کو اِس بات کا اندازہ ہو جائے کہ اُن کے تمام تجارتی راستے مسلمانوں کی پہنچ میں ہیں، لہٰذا امن سے رہنا ہی اُن کے مفاد میں ہے۔ 

حضرت عبداللہ بن جحشؓ نے طویل مسافت طے کی اور نخلہ میں قیام فرمایا۔ جب قریش کا قافلہ وہاں پہنچا، تو مسلمانوں کو دیکھ کر اُس پر ہیبت طاری ہوگئی۔ بہرحال، کفّارِ مکّہ کے قافلے میں شامل عمرو بن حضرمی ایک تیر لگنے سے ہلاک ہوگیا، جب کہ عثمان بن عبداللہ بن مغیرہ اور حکیم بن کیسان گرفتار کر لیے گئے۔ نوفل بن عبداللہ بن مغیرہ قافلے کو مکّے کی جانب لے کر بھاگ گیا۔ اس قافلے میں شراب، کِشمش اور چمڑا تھا، جسے یہ لوگ طائف سے لائے تھے۔ دونوں قیدی اور مالِ غنیمت آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش کیے گئے۔ جو لوگ گرفتار اور قتل ہوئے، وہ بڑے معزّز خاندان کے لوگ تھے۔ 

عمرو بن الحضرمی جو قتل ہوا، قریش کے ایک بڑے رئیس، عبداللہ بن حضرمی کا بیٹا تھا۔ (طبقات ابنِ سعد)۔ عمرو بن الحضرمی کے قتل نے قریش کو سخت مشتعل کر دیا۔ یہ مسلمانوں کی جانب سے پہلا خون اور پہلے مشرک قیدی تھے۔ دونوں قیدیوں نے اسلام قبول کر لیا، لہٰذا حضورﷺ نے اُنھیں رہا کر دیا، لیکن نفرت، دُشمنی اور انتقام کی آگ نے کفّارِ مکّہ کو اندھا کر دیا تھا۔ عمرو بن الحضرمی کا قتل اُن کے لیےخون کا بدلہ لینے کا ایک بہانہ بن گیا۔ علّامہ طبریؒ لکھتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ کے بھانجے، حضرت عمروہ بن زبیرؓ کے مطابق، غزوۂ بدر اور وہ تمام لڑائیاں، جو قریش سے پیش آئیں، سب کا سبب حضرمی کا قتل ہی تھا۔

جہاد کی فرضیت، ترغیب اور تیاری

سَرِیّہ عبداللہ بن جحش ؓکے واقعے نے قریش کو حیرت زدہ کر دیا تھا۔ اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مسلمان مدینہ منوّرہ سے 300 میل دُور، مکّے کی سرحد پر، اُن کے اپنے علاقے میں پہنچ کر ،جہاں قریش کے سرداروں کی اجازت کے بغیر پرندہ بھی پَر نہیں مار سکتا، نہ صرف حملہ کر کے ایک معزّز شخص کو قتل کر سکتے ہیں، بلکہ دو کو قید کر کے بھی لے جا سکتے ہیں۔ 

اب اُنھیں اِس بات کا یقین ہوگیا تھا کہ یہ لوگ اُن کے کسی بھی تجارتی راستے کو بند کر سکتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ امن کا معاہدہ کر لیتے، لیکن اُنھوں نے مسلمانوں سے فیصلہ کُن جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں اور بے چینی سے شام سے آنے والے ابوسفیان کے تجارتی قافلے کا انتظار کرنے لگے اور یہی وقت تھا کہ جب حالات کی سنگینی کے پیشِ نظر اللہ تعالیٰ نے جنگ کی فرضیت، ترغیب اور تیاری کے احکامات نازل فرمائے، جس کی تفصیل سورۃ البقرہ کی آیات 190 تا 193، قرآنِ پاک کی 47 ویں سورت، سورۂ محمّد(ﷺ) کی آیات 4 تا 7 اور 20 کے علاوہ دیگر کئی اور آیات میں موجود ہے۔

ابو سفیان کے قافلے پر حملے کی جھوٹی خبر

ابوسفیان مشرکین کے تجارتی قافلے کو مسلمانوں سے بچا کر مُلکِ شام لے گیا تھا۔ آنحضرتﷺ کو اس قافلے کی اہمیت کا اندازہ تھا۔ آپﷺ کو علم تھا کہ یہی وہ قافلہ ہے، جس کا مال و اسباب مسلمانوں سے جنگ کے لیے کفّار کا معاون و مددگار ہوگا، چناں چہ آپﷺ نے دو صحابہ، حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ اور حضرت سعیدبن زیدؓ کو قافلے کی واپسی کے بارے میں معلومات کے لیے روانہ کیا۔ ابوسفیان ایک تجربے کار سردار تھا۔ 

اُسے مکّہ جانے والے راستوں کے خطرات کا اندازہ تھا اور مسلمانوں سے خوف زدہ بھی تھا۔ لہٰذا، اُس نے احتیاط کے تقاضوں کے پیشِ نظر ایک شخص، ضمضم بن عمرو کو اُجرت دے کر مکّہ روانہ کیا تاکہ وہ قریش کو قافلے کی حفاظت کے لیے خصوصی پیغام پہنچا دے۔ ضمضم نہایت برق رفتاری کے ساتھ، دن رات سفر کرتا مکّہ پہنچا اور چیخ چیخ کر اعلان کرنے لگا’’اے مکّہ کے لوگو! مسلمان ابوسفیان کے قافلے پر حملہ کرنے والے ہیں۔ اگر تم اپنا مال و اسباب بچانا چاہتے ہو، تو بچا لو۔‘‘ اس تجارتی قافلے پر قریش کے ہر گھر نے اپنی کُل جمع پونجی لگا دی تھی، یہاں تک کہ عورتوں نے اپنا تمام زیور بھی قافلے کے حوالے کر دیا تھا۔ 

لہٰذا،حملے کی اطلاع نے اُن کے غیظ و غضب کو جنون میں تبدیل کر دیا۔ اس سے پہلے عمرو بن حضرمی کا قتل اُن کی غیرت و حمیّت پر ایک کاری ضرب لگا چُکا تھا، چناں چہ قریش کے تیور اور تیاریاں دیکھ کر صاف محسوس ہو رہا تھا کہ حق و باطل کے درمیان ایک خون ریز اور فیصلہ کُن معرکے کا وقت قریب آ چُکا ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین