• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ببرک کارمل جمالی

اب چنگ چی کے آنے کے بعد اس کا سورج غروب ہورہا ہے

کراچی کی سڑکوں پر چلنے والی ’منی بس ’ڈبلیو گیار ہ ‘سے کون واقف نہیں ۔ بہت بنی سنوری اور سجی ہوئی یہ گاڑی اس شہر کی سڑکوں پر راج کیا کرتی تھی اور اپنے سفر کرنے والوں کو انتہا ئی سستا سفر مہیا کیا کرتی تھی ۔ مشہور زمانہ منی بس جب کبھی شہرت کے بام عروج پر پہنچی کہ آسٹریلیا میں اس کا ماڈل بنایا گیا۔

ڈبلیو 11 کی طرز پر بنائی گئی یہ بس دراصل میلبرن کی سڑکوں پر دوڑتی ٹرام تھی جو 1978 سے فعال تھی۔ 28 سال تک مسافروں کو ان کی منزل پر پہنچانے کے بعد اس بس کو سنہ 2006 میں ریٹائرڈ کردیا گیا۔اس بس کو پہلی بار آسٹریلیا اس وقت لایا گیا جب میلبرن پہلی بار دولت مشترکہ کے کھیلوں کی میزبانی کر رہا تھا۔بس کے اولین مسافروں کو ٹکٹ کے طور پر ایک یادگاری سووینئر دیا گیا تھا، جس پر ٹرکوں پر کی جانے والی شاعری درج کی گئی تھی۔

اب اس بس کو مرمت اور رنگ و روغن کے بعد بحال کر کے میوزیم میں رکھا گیا ہے اور اس لاجواب بس کی سجاوٹ ، دلفریبی ، برق، رفتاری کو سراہا گیالیکن کراچی میں اس کی ناقدری کی گئی ، آج یہ زبوں حالی کا شکار ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہورہا ہے ۔خدشہ ہے کہ دنیا بھر میں شہرت کا سبب بننے والی یہ گاڑی کہیں دوسری بسوں کی طرح بند ہی نہ ہو جائے۔ چنگ چی رکشوںکےآنے کے بعد اس کا سورج غروب ہورہا ہے۔ یہ منی بسیں اب پانچ سو سے کم ہوکر صرف دو سو پچاس رہ گئی ہیں،جبکہ بڑی تعداد میں منی بسوں کو ڈبلیوگیارہ کے روٹ سے ہٹائے جانے کی وجہ سے کاروباری لحاظ سے نقصان ہو رہا ہے۔

کراچی کی سب سے خوبصورت اور بہترین لوکل سستی سروس ڈبلیو گیارہ ہی کی ہے۔کچھ عجیب بات نہیں کہ اس بس میں اوپر نیچے مسافروں کو مال مویشیوں کی طرح لاد لیا جاتا ہے اور کراچی کی ہواکھلائی جاتی ہے۔ اگر خوش قسمتی سے بس میں سیٹ مل جائے تو بھی کئی طرح کی آفات و بلّیات سے نجات نہیں ملتی ۔ کھچا کھچ بھری مسافر ایک دوسرے میں پیوست ہوجاتے ہیں۔ اگر کراچی کی بسوں کے اندر مسافروں کا رش دیکھنا ہے تو بس ڈبلیو گیارہ میں دیکھا جا سکتا ہے ۔

کراچی کی بسوں کے مسافر ہمیشہ پریشان رہتے ، جیب کتروں سے کبھی لٹیروں سے ۔ یہ تو اکثر ہوتا ہے کہ موبائل فون کی بیل کسی اور کی بجتی ہے اور ہاتھ ہمارا اپنی جیب میں چلا جاتا ۔ مسجد کے لیے چندہ وصول کرنے والے مولوی بہت کم آپ کو ڈبلیو گیارہ پہ ملیں گے کیونکہ ان بسوں میں جگہ ہی نہیں ملتی۔یہ بڑے ستم گر ہیں۔ اگر کبھی بس میں سوار ہوجائیں تو میگا فون مسافر کے کان کے پاس لگا کر چندہ مانگتے ہیں۔

ایک روزہم نے بھی ڈبلیو گیارہ میں معمار چوک سے صدر تک سفرکیا،صرف اس غرض سے کیا ڈبلیو گیارہ کی نظر سے کراچی کو دیکھا جائے۔آخر بڑی تھکاوٹ کے بعد دو گھنٹوں میں ہم صدر پہنچ گئے ۔صدر کی مشہور قلفی کھائی ۔کچھ سامان خریدا اور پھر ڈبلیو گیارہ کا رخ کیا۔ ڈبلیو گیارہ جناح روڑ سے گزرتی ہے۔ اس دوران ہم نے مسلسل تین بسیں چھوڑیں شائد کوئی بس خالی آجائے، مگر پھر بھی کوئی بس خالی نہ آئی تو اگلی بس کے کنڈیکٹر نے ڈبلیو گیارہ کی چھت پر بیٹھنے کو کہا ۔

جھٹ پٹ بیٹھ گئے۔ بس کچھ آگے بڑھی توکنڈیکٹر نے ہانک لگائی’’ارے بس کے اوپرلیٹ جاؤ،ورنہ چالان ہو جائے گا‘‘سو ہم بس کی چھت لیٹ سے گئے ۔جیسے ہی گرو مندر کراس کیا تو ہمیں دوبارہ بیٹھنے کا آرڈر دیا گیا۔ سو ہم بیٹھ گئے۔ آخر ہم جب اپنی منزل پہ اترے تو ایسا لگا، جیسے لاکھوں کلومیٹر کا سفر طے کر کے آئے ہوں۔ ہم نے جب اپنا چہرہ شیشے میں دیکھا تو اپنے آپ کو بھی پہچان نہ سکے ۔

جلدی جلدی ہم نے پانی سے اپنا ہاتھ منہ صاف کیا تو اصل چہرہ نظر آگیا۔ آج سے پانچ سال پہلے میں نے ایک کہانی لکھی تھی، جس میں یہ جملہ لکھا تھا کہ کراچی کی دوخاص باتیں اور وہ ہیں اس کے دو سمندر، ایک پانی کا دوسرا انسانی آبادی کا سمندر اور اب دھول مٹی کا سمندر۔

تازہ ترین