• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں شرح خواندگی کی بات کی جائے تو اس حوالے سے زیادہ حوصلہ افزا تصویر سامنے نہیں آتی کیونکہ ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے 200 سے زائد ممالک کی فہرست میں 173ویں نمبر پر ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ تعلیم کا حصول عام عوام کی دسترس سے باہر ہو تا جارہاہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد اب چونکہ شعبہ تعلیم صوبائی معاملہ ہے، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومتیں سنجیدہ کوششیں کرتے ہوئے پرائمری اور ثانوی تعلیم کے حصول کو لازمی بنائیں اور اس حوالے سے سہولتیں فراہم کریں۔

ترقی یافتہ ممالک کی بات کریں تو وہاں بچے کے گھر اور اسکول کی زبان ایک ہی ہوتی ہے، وہ جو زبان اپنے دوستوں، پڑوسیوں اور رشتہ داروں سے بولتاہے، اسی زبان میں اسکول میں لکھتا، پڑھتا اور سیکھتا ہے۔ یہ طرز عمل اسے آگے بڑھنے اور خود اعتمادی حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے ، وہ اپنی زبان میں بنا ہچکچاہٹ اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے۔ 

وہ پیشہ ورانہ لحاظ سے بھی بہتر ہوتا ہے اور اپنے علم و تجربہ کو اپنی آئندہ نسل میں منتقل کردیتاہے جبکہ پاکستان سمیت دیگر ترقی پزیر ممالک میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ بچے کو مادری زبان کے بجائے انگریزی زبان میں پڑھانے یا سکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس ضمن میں یہ بات خوش آئند ہے کہ صوبہ پنجاب میں آئندہ برس سے پرائمری سطح پر صرف اردو زبان کو ذریعہ تعلیم کے لیے اختیار کیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کو انگریزی کا مضمون سمجھانے کے بجائے اساتذہ کاسار ا وقت اس کا ترجمہ کرنے میں صرف ہو جاتاہے ، اس وجہ سے بچوں کی سیکھنے کی صلاحیت بھی دب جاتی ہے، تاہم ابھی اس بات کا فیصلہ ہونا باقی ہے کہ یہ پالیسی ہر چھوٹے بڑے اسکول پر لاگو ہوگی یا اس کا دائرہ کار صرف مخصوص اسکولوں تک محدود ہوگا۔ 

اگر یہ فیصلہ کامیاب ہوجاتاہے تو پھر اس سلسلے کو بتدریج مڈل، ثانوی اور اعلیٰ ثانوی جماعتوں تک بڑھانا ہوگا یہاں تک کہ پیشہ ورانہ سطح پر بھی طلبا کو اردو زبان میں وہ تمام علمی مواد فراہم کرنا ہوگا، جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے مثلاً ایک چینی طالب علم اپنی زبان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہوئے ڈاکٹر یا انجینئر بن جاتا ہے، اسی طرح جرمن، ڈچ، جاپانی یا دیگر زبانوں میں تعلیم حاصل کرنے والے پیشہ ورانہ لحاظ سے تعلیم کی بلندیوں پر پہنچ جاتے ہیں۔

فِجی (Fiji)میں 3سے5سال تک کے بچوں پر ان کے گھروں اور کمیونٹیز میں تحقیق کی گئی۔ تحقیق کے نتائج میں کہا گیا کہ بچے مختلف میڈیا کے ذریعے اپنے گھروں اور کمیونٹیز میں جو کچھ سیکھتے ہیں، اس کے ان کی خواندگی پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ میلبورن انسٹی ٹیوٹ آف اَپلائیڈ اکنامکس اینڈ سوشل ریسرچ کے نتائج بھی اسی سے ملتے جُلتے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ چھوٹے بچوں کو باقاعدگی سے گھر میں کتاب پڑھ کر سُنانے کی عادت انھیں اسکول جانے پر زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

اگر ہم تعلیمی نکتہ نگاہ سے دنیا کے دیگر ممالک پر نظر ڈالیں تو ہمیں فن لینڈ آئیڈیل دکھائی دیتاہے۔ اس ملک میں اساتذہ کی تعیناتی کا نظام اتنا دشوار اور مقابلے پر مبنی ہے کہ اگر دس افراد بطور ٹیچر اپنی خدمات دینے کیلئے درخواست دیں تو ان میں سے صرف ایک ہی منتخب ہو کر تدریس کے شعبے میں داخل ہوسکتا ہے۔ 

ان کے انتخاب کے مرحلےمیں ان کے تعلیمی ریکارڈز کے ساتھ ساتھ ان کی غیرنصابی سرگرمیوں اور دلچسپیوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جاتاہے ۔ ان کی نہ صرف تخلیقی و تنقیدی صلاحیتوں کو پرکھا جاتاہے بلکہ مخصوص مدت تک ان کوایک کلاس روم میں اپنی صلاحیتوں کا کامیاب اظہار کرنا ہوتا ہے تب کہیں جا کر ان کو معلم یا معلمہ کے طور پر منتخب کیا جاتاہے۔

اس ماڈل کو سامنے رکھیں تو نہ صرف ہمارے ملک میں بلکہ کئی دیگر ممالک میں بھی تدریس کا معیار کسمپرسی کا شکار ہے۔ جب اساتذہ ہی قابل اور لائق نہیں ہوں گے ، تو بچوں کا کیا تعلیم دے پائیں گے اور ایسے اساتذہ سے تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا مستقبل بھی ایک سوالیہ نشان ہوتا ہے۔ 

اسی لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اسکول نہ جانے والے بچوں کو اسکول کے اندر لانے کی پالیسی اور نئے اسکولوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تربیت اور ان کے انتخاب کے حوالے سے بھی انقلابی اقدامات کیے جائیں تاکہ ملک میں خواندگی کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوسکے۔

تازہ ترین