ہمارے ملک کی نصف آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور نوجوان کسی بھی ملک و قوم کا اصل سرمایہ اور روشن مستقبل کی نوید ہوتے ہیں ۔نئے خون پر شتمل افرادی قوت ممالک کی تعمیر و ترقی اور استحکام میں لازوال کردار ادا کرتی ہے ۔ لیکن پاکستان جس کی کثیر آبادی نوجوان طبقے پر مشتمل ہے، اپنی اس افرادی قوت سے استفادہ کرنے میں ناکام ہے۔ منشیات کے زہر نے نوجوان نسل کو ناکارہ اورمعاشرے پر بوجھ بنا دیا ہے۔
طرفہ تماشایہ ہے کہ منشیات کو کنٹرول کرنے والے ادارے ایکسائیز اینڈ ٹیکسیشن کو غیرفعال کرکے منشیات فروشوں کے کام میں آسانی پیدا کردی گئی ہے۔ یہ منشیات ٹنوں کے حساب سے ٹرکوں اور دیگر باربردار گاڑیوں میں بھر کر صوبہ سرحد کے دوردراز علاقوں سے لائی جاتی ہے، جس کی خرید و فروخت سندھ کے تمام شہروں بہ شمول کراچی آزادانہ طور پر ہوتی ہے۔ معاشی بدحالی ، بے روزگاری اور غربت سے تنگ آئے ہوئے نوجوانوں کی بڑی تعداد ذہنی انتشار سے وقتی طور پر چھٹکارا پانے کے لیے نشہ آور اشیاء کا استعمال کرکےموت کے دہانے پر پہنچ جاتی ہے۔
ہیروئن، چرس اور افیون کی ترسیل صوبہ خیبر پختون خوا کے دور دراز کے علاقے درہ آدم خیل اور دیگر قبائلی علاقوں سے کی جاتی ہے۔ اسمگل ہوکر آنے والی منشیات مقامی ایجنٹوں کے توسط سے بڑے شہروں اور اس کے بعداندرونی قصبات ، دیہی علاقوں اور گلی کوچوں میں فروخت کی جاتی ہیں۔ یہ منشیات جوایک ہزار سے زائد کلومیٹر کا سفر طے کرکے سندھ کی سرحد پار کرتی ہے، اس کے راستے میں کئی درجن پولیس چوکیاں، ایکسائز و کسٹم کی چیک پوسٹس اور انسداد منشیات کے منظم ادارے اینٹی نارکوکو ٹکس فورس کی گشتی پارٹیوں سے مدبھیڑ ہوتی ہے لیکن یہ حیرت انگیز طور سے انہیں جل دے کر یہ اشیا کراچی تک پہنچ جاتی ہیں۔
اس سلسلے میں پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں فروخت ہونے والی منشیات کو بازیاب اور ملزمان کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمات بنائے۔ عدالت میں ملزمان کا چالان پیش کرے اور مقدمہ کوٹھوس بنیادوں پر بنا کر ملزمان کو سزا دلوائے ۔ محکمہ ایکسائز جس کی ذمہ داری منشیات کی ترسیل کو روکنا ہے اور اس کے لئےان کے پاس بڑی فورس ، جدید گاڑیاں اور دیگروسائل موجود ہیں ، اور اس مد میں اربوں روپے سالانہ کا بجٹ مختص کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اس محکمہ کی کارگردگی صرف کاغذی کارروائیوں تک محدود ہے ۔
جنگ کے سروے کے مطابق محکمہ ایکسائزسے متعلق جو حقائق سامنے آئے ہیں ان میں ایک اہم بات یہ معلوم ہوئی کہ اس منفعت بخش محکمہ میں گزشتہ دس سال میں جو بھرتیاں ہوئی ہیں ان میں میرٹ کی بہ نسبت سفارش اور پرچی کو زیادہ فوقیت دی گئی ہے۔ محکمہ ایکسائز کی جانب سے منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام نہ ہونے کی وجہ سے پولیس پر دوہرا بوجھ پڑ گیا ہے۔ پولیس جس کا کام امن وامان کاقیام ہے ، لیکن وہ منشیات کی بیخ کنی اور منشیات فروشوں کے تعاقب میں مصروف رہتی ہے ، جس کی وجہ سے وہ علاقوں میں اسٹریٹ کرائمز، چوری ڈکیتیوں کی وارداتوں کے خلاف یکسوئی کے ساتھ کارروائی نہیں کر پاتی۔
ایس ایس پی شہید بینظیر آباد تنویر حسین تنیو کی جانب سے ایک ماہ کی کارکردگی میں برآمد کی گئی منشیات کی رپورٹ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ضلع شہید بینظیر آباد کی پولیس نے منشیات کے خلاف مہم میں دو سو مقدمات درج کیے اور 188 ملزمان کو گرفتار کرکے ان کے قبضہ سے 56 کلو 385 گرام چرس،20 گرام ہیروئین.60 کلو بھنگ 4 وہسکی کی بوتلیں۔ 3390لیٹر کچی شراب برآمدکیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن جس کے قیام کا بنیادی مقصد منشیات کی اسمگلنگ پر کنڑول کرنا تھا،لیکن گاڑیوں کی رجسٹریشن اور سیل ٹیکس کی وصولی کے فرائض بھی اس کی ذمہ داریوں میں شامل کئے گئے ، جس کی وجہ سے اس کی فعالیت بھی متاثر ہوئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے ایکسائز کے محکمے کو فعال بنایا جائے۔