• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی نمائدہ خصوصی کے طور پر ہالینڈ کی ملکہ میکسیما احساس پروگرام کے ذریعے غریب خواتین کی غربت دور کرنے اور خواتین کو مالی طور پر بااختیار بننے میں مدد دینے کے پروگرام میں اپنا حصہ ڈالنے کیلئے تشریف لائی تھیں۔ اس مالیاتی احساس پروگرام کے تحت ملک کے پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبود کیلئے شروع کئے گئے منصوبوں کی کٹے، مرغیاں اور انڈے دے کر ابتدا کی جا چکی ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے اس تقریب میں اپنی تقریر میں کہا کہ انھوں نے غریب خواتین کی غربت اور محرومیوں کے خاتمے کے لئے احساس پروگرام شروع کیا ہے تاکہ غریبوں کی محرومیوں کا احساس کرتے ہوئے اُن کا خاتمہ کیا جائے (غریب کا نہیں غربت کا) خاص طور پر غریب و مفلوک الحال خواتین کی غربت دور کی جا سکے۔ خواتین معاشرے کا کمزور طبقہ ہیں، بیوائوں، یتیموں، معذوروں کو اُن کا حق دیا جائے۔ ریاست مدینہ کا ذکر ایک بار پھر خواتین کےحوالے سے کیا گیا۔ لیکن شاید محترم وزیراعظم جو پاکستان کو ریاست مدینہ میں تبدیل کرنےکا عظیم عزم رکھتے ہیں، یہ علم نہیں ہے کہ ریاست مدینہ میں عورت کے فرائض اور حقوق کیا ہیں، ریاست مدینہ میں اسلامی شریعت کے نفاذ کے ساتھ عورت پر کیا کیا ذمہ داری عائد ہوئی تھی۔ کن کن فرائض کا پابند کیا گیا تھا، کیا آج کی عورت اُن شرعی پابندیوں کو برداشت کر سکے گی۔ آپ کس طرح سے غریب نادار عورت کو اس کے پیروں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں تاکہ اُس کا احساس محرومی ختم ہو سکے؟ جدید ریاست مدینہ کا کون سا نقشہ روبہ عمل ہو گا؟ احساس پروگرام سے اگر عورتوں کی مفلسی و غربت کسی طرح دور ہو بھی گئی تو ان کے غریب مردوں کا کیا بنے گا جو پہلے ہی بیروزگار ہیں۔ کیا غریب عورت اپنے غریب مرد کی مددگار بن کر اس کی کفالت کرے گی؟ کیونکہ ملک میں بیروزگاری نے جس طرح ڈیرہ جما لیا ہے اس کا کیا علاج کیا جائے گا۔ کیا غریب مفلس معذور عورتوں کے احساس پروگرام کی طرح غریب مردوں کیلئے بھی کوئی اسی طرح کا پروگرام بننے والا ہے کیونکہ ہر آنے والے دن کے ساتھ ملک میں بیروزگاری اور مہنگائی بڑھ رہی ہے جس کا فی الحال کوئی تدارک ہوتا نظر نہیں آرہا۔ مشیرانِ معیشت مزید مہنگائی کی خبر سنا رہے ہیں۔ جس سے ظاہر ہے کہ ملک میں مزید بے روزگاری بڑھے گی، جتنی مہنگائی بڑھے گی لوگوں کا اپنی محدود آمدنی میں گزارا ممکن نہیں رہے گا، جیسا ابھی شروع ہو رہا ہے کہ عیال دار مفلس کم آمدنی والے افراد خود کشی کر رہے ہیں۔ اپنے ساتھ اپنے بیوی بچوں کو بھی فنا کے گھاٹ لے جا رہے ہیں۔ اس طرح نہ صرف غربت مٹ رہی ہے بلکہ غریب بھی مٹ رہا ہے یعنی جب غریب ہی نہیں رہے گا تو غربت کہاں سے آئے گی، نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ غریبوں کے لئے تیار ہونے والے پچاس لاکھ گھروں کی لاگت کا تخمینہ دیا گیا ہے وہ غریب تو غریب، سفید پوش درمیانہ طبقہ بھی حاصل نہیں کر سکے گا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ محلات اُن تنخواہ دار حضرات کے لئے ہوں گے جن کی تنخواہ پچیس ہزار سے تیس ہزار ماہانہ ہوگی۔ منصوبہ سازوں کو بے ساختہ داد دینی چاہئے کہ ایک ایسا شخص جس کی آمدنی پچیس تیس ہزار ہو وہ کیسے اس محل کی ماہانہ قسط جو صرف 65ہزار ہے، ادا کرے گا۔ کیسے کرے گا یہ خریدار کا درد سر ہوگا، اگر اس غریب کی تنخواہ تیس ہزار ہے تو وہ گھر بھر کو جب تک قسطیں پوری نہیں ہوتیں، فاقے کرائے اور قسط دینے کیلئے ہر ماہ مزید 35ہزار کا بندوبست بھی کرے۔ کیا اس طرح بدعنوانی کی دعوت نہیں دی جا رہی؟ کیا آنے والی نئی ریاست میں کوئی نیا طریقہ رائج ہونے کو ہے جس سے تیس ہزار خود بخود بڑھ کر 95ہزار بن جائیں گے۔ جانے ریاست مدینہ کا سورج کب طلوع ہوگا، کب ہوگا سویرا، کب غربت کا، مہنگائی کا خاتمہ کب ہوگا۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان نت نئے تجربات سے گزارا جا رہا ہے۔ سارے تجربات غریب عوام پر کیے جا رہے ہیں، غریب درمیانہ طبقہ ہی تختہ مشق بن رہا ہے۔ اللہ اہل وطن اور وطن عزیز کاحامی ناصر ہو۔ آمین!

تازہ ترین