• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دواساز کمپنیوں اور ڈاکٹروں کا گٹھ جوڑ توڑنے کا وقت آگیا، ظفر مرزا

دواساز کمپنیوں اور ڈاکٹروں کا گٹھ جوڑ توڑنے کا وقت آگیا، ظفر مرزا


وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا ہے کہ پاکستان میں ادویہ ساز اداروں اور ڈاکٹروں کا گٹھ جوڑ مریضوں کی زندگیوں کو خطرات سے دوچار کر رہا ہے، ادویہ ساز اداروں اور ڈاکٹروں کے مریض دشمن گٹھ جوڑ کو توڑنے کا وقت آگیا ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیشنٹ سیفٹی کے موضوع پر منعقدہ چوتھی عالمی کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس کا انعقاد انٹرنیشنل رفاہ یونیورسٹی اسلام آباد نے انسٹی ٹیوٹ آف لیڈرشپ ایکسیلینس کے تعاون سے کیا تھا۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ پاکستان میں نہ صرف اتائی بلکہ ڈگری یافتہ ڈاکٹر بھی مریضوں کی صحت سے کھیلنے میں مصروف ہیں، اسلام آباد میں بھی صوبائی ہیلتھ کیئر کمیشنز کی طرز پر ہیلتھ کیئر اتھارٹی بنانے جارہے ہیں، ہمیں مریضوں کے مفادات کی حفاظت کرنی ہوگی۔ تربیت یافتہ ڈاکٹرز غیر اخلاقی طرز عمل اختیار کرتے ہوئے مریضوں کو غیر ضروری اور غلط ادویات تجویز کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں فارما سیوٹیکل کمپنیاں انہیں نواز رہی ہیں۔

اس موقع پر آئی ایل ای کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ذکی الدین احمد، انٹرنیشنل پیشنٹ سیفٹی ایکسپرٹ اور وائن اسٹیٹ یونیورسٹی امریکہ کے پروفیسر ڈاکٹر پال باراش، یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے پروفیسر ڈاکٹر عزیز شیخ، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے چانسلر حسن خان، وائس چانسلر پروفیسر انیس احمد، راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد عمر، چیئرمین مارٹن ڈاؤ گروپ علی آکھائی، ڈپٹی سرجن جنرل آف پاکستان آرمی ڈاکٹر سلمان اشرف نے خطاب کیا۔

وفاقی مشیر برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے انکشاف کیا کہ گزشتہ ماہ ایک فارمولا ملک یا بچوں کا دودھ بنانے والی کمپنی نے بچوں کے امراض کے 40 ماہرین کو ایک کانفرنس کے لبادے میں پانچ دن کے لیے تفریحی سفر پر اسپین بھیجا تھا اور اس تفریح کے بدلے میں ان ڈاکٹروں نے بچوں کے لیے اس کمپنی کا فارمولا ملک تجویز کرنے کا عہد کیا ہے، وطن واپسی پر یہ ڈاکٹر ماؤں کو بچوں کی صحت کے نام پر یہ فارمولا ملک تجویز کریں گے، دنیا بھر کے ماہرین ابتدائی چھے ماہ تک خاص طور پر بچوں کے لیے ماں کا دودھ تجویز کرتے ہیں جو بچے کی صحت کے لیے ناگزیر ہے۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے صوبائی ہیلتھ کیئر کمیشنز کی طرز پر اسلام آباد ہیلتھ ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کا عندیہ بھی دیا تاکہ نجی صحت کے اداروں کی دیکھ بھال اور سہولیات کا جائزہ لیا جا سکے اور انہیں قانون کے دائرہ کار میں لایا جا سکے اور ایسے پرائیویٹ اسپتال اور کلینکس کو بند کیا جا سکے جو غیر تربیت یافتہ، غیر لائسنس یافتہ پریکٹیشنرز اور اتائی چلا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے ہم اس حوالے سے قانون سازی کریں تاکہ مریضوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں نجی اسپتالوں اور کلینکس کی سہولیات کا جائزہ لینے، تربیت یافتہ اور لائسنس یافتہ پریکٹشنرز کو قانون کے دائرے میں لانا ہوگا اور مریضوں کی زندگیوں کو خطرات سے دوچار کرنے والے غیر تربیت یافتہ اور بغیر لائںسنس پریکٹشنرز پر پابندی عائد کرنی ہوگی اور اس کام کے لیے ہمیں تربیت یافتہ انسپکٹرز کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ انہوں نے کابینہ سے اسلام آباد ہیلتھ کیئر فیسیلیٹیز منیجمنٹ ایکٹ کی منظوری لے لی ہے، جو خاص طور پر وفاقی دارالحکومت کے سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کے تحفظ اور انہیں صحت کی بہتر سہولیات کی فراہمی کے لیے ہوگا۔

ڈاکٹر مرزا نے کہاکہ ہمیں لائسنس یافتہ اور بغیر لائسنس یافتہ پرائیویٹ اسپتالوں کا معیار جانچنے کے لیے پروگرام شروع کرنا چاہیے جو ان اسپتالوں کا معائنہ کرکے مریضوں کے تحفظ اور انہیں دی جانے والی سہولیات کے عالمی معیار کو سامنے رکھ کر ان کی جانچ کرے۔

وفاقی مشیر صحت نے بتایا کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی خطرناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے اور پاکستان کی 10 فیصد آبادی ہیپاٹائٹس سی کے مرض میں مبتلا ہے اور یہ شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے جس کی وجہ مریضوں کو لگائے جانے والے 80 فیصد انجکشن استعمال شدہ ہوتے ہیں، پاکستان میں سالانہ ایک شخص کو 8 سے 10 انجکشن لگائے جاتے ہیں جن میں سے 90 فیصد غیر ضروری ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ رتوڈیریو لاڑکانہ میں ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کی وجہ بھی غیر محفوظ اور استعمال شدہ انجکشن اور انفیکشن کنٹرول کی بدترین صورتحال تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ لاڑکانہ کے علاقے رتوڈیرو میں بچوں میں پائی جانے والی ایچ آئی وی کی وبا محض ایک ٹریلر ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ملک بھر میں ایچ آئی وی کی اسکریننگ کی جائے تو اس کے نتائج ہر شخص کے لئے حیران کن ہوں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ نیا قائم کردہ پاکستان میڈیکل کمیشن نہ صرف میڈیکل پریکٹس کے معیارات طے کرے گا بلکہ پاکستان میں انڈرگریجویٹ میڈیکل ایجوکیشن کے نصاب کو بھی تبدیل کردے گا تاکہ ڈاکٹروں کو مریضوں کی صحت و سلامتی کا ضامن بنایا جا سکے۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے معروف امریکی ماہر پروفیسر پال براش کا کہنا تھا کہ امریکہ سے زیادہ صحت پر کوئی ملک پیسے خرچ نہیں کرتا لیکن وہاں پر بھی مریضوں کی سلامتی اور تحفظ کے لیے کیے گئے اقدامات ناکافی تصور کئے جاتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ مریضوں کا تحفظ اسپتالوں کے نظام کو تبدیل کرنے سے مشروط ہے۔

انسٹیٹیوٹ آف لیڈرشپ ایکسیلینس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ذکی الدین احمد نے بتایا کہ ان کا ادارہ پورے پاکستان میں یونیورسٹی اور اسپتالوں کی سطح پر ڈاکٹروں کی تربیت کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ رفاہ یونیورسٹی کے پلیٹ فارم سے پاکستان میں پیشنٹ سیفٹی کے حوالے سے چوتھی کانفرنس منعقد کی جارہی ہے جس کے نتیجے میں اب مریضوں کی سلامتی اور تحفظ کے اقدامات کو بےحد ضروری سمجھا جارہا ہے۔

معروف برطانوی ماہر اور ایڈنبرا یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عزیز شیخ کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کے استعمال، ڈاکٹروں کی تربیت اور مریضوں میں شعور اجاگر کرنے سے اسپتالوں میں مریضوں کی سلامتی اور تحفظ کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

اس موقع پر پاکستان بھر سے ایک نرس، ڈاکٹر اور اسپتال کو مریضوں کی سلامتی اور تحفظ یقینی بنانے پر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

تازہ ترین