• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے قیام کے 52سال مکمل کر لیے ہیں اور اپنا 53واں یومِ تاسیس 30نومبر 2019کو منایا ہے۔ اِس موقع پر مظفر آباد آزاد کشمیر میں منعقدہ جلسۂ عام سے پیپلز پارٹی کی تیسری نسل کے قائد اور نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان مزید تجربات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ سلیکٹرز کا آخری تجربہ ناکام ہو چکا ہے۔ 

عوام کو اُن کا حقِ حکمرانی لوٹانا ہو گا۔ 52سال پہلے پاکستان پیپلز پارٹی نے عوام کے حقِ حکمرانیکیلئے جدوجہد کا آغاز کیا تھا اور اس مقصدکیلئے 30نومبر 1967کو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن میر کی رہائش گاہ پر پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ 

52سال بعد بھی پیپلز پارٹی یہ جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان 52برسوں میں نہ صرف عوام کے حقِ حکمرانیکیلئے جدوجہد جاری ہے بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی 52سال سے عوام کی حقیقی نمائندہ سیاسی جماعت کے طور پر موجود ہے۔ 

اس نصف صدی میں تیسری دنیا کی بہت سی ترقی پسند اور عوام دوست سیاسی جماعتیں ختم ہو گئی ہیں اور چند سیاسی جماعتیں اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ 

یہ ایک تاریخی راز ہے، جسے سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ 52برسوں میں صرف وقت ہی نہیں گزرا بلکہ تاریخ انسانی کے دو عہد بھی ختم ہوئے، جو قبل ازیں ہزاروں یا سینکڑوں سالوں تک چلتے تھے۔ 

ان 52سالوں میں سرد جنگ کے عہد کا خاتمہ ہوا اور پھر امریکہ کے نئے عالمی ضابطے کا عہد بھی اپنے انجام کو پہنچا۔ یہ دونوں عہد تیسری دنیا کی کئی مقبول اور غیر مقبول سیاسی جماعتوں کے وجود کو کھا گئے لیکن پیپلز پارٹی سمیت تیسری دنیا اور اشتراکی دنیا کی چند سیاسی جماعتیں ابھی تک موجود ہیں۔

رجعت پسند اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اگر اس عرصے میں اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں تو اس میں حیرت کی بات نہیں ہے کیونکہ وہ سسٹم کی مخالف نہیں،انقلاب مخالف ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ تیسری دنیا میں پیپلز پارٹی جیسی سیاسی جماعتیں مستقبل میں اپنا وجود کیسے برقرار رکھ سکتی ہیں؟

اس سوال کا جواب حاصل کرنےکیلئے جدلیاتی اور تاریخی مادیت کے کچھ اصولوں کا ادراک کرنا ہوگا، جنہیں تاریخ نے زبردست ثابت کیا ہے۔ پہلا اصول یہ ہے کہ زیادہ عرصے تک قائم رہنے والی سیاسی جماعتیں بڑی سیاسی تحریکوں سے جنم لیتی ہیں۔ 

پاکستان میں 1947کے بعد کئی سیاسی تحریکیں چلتی رہیں۔ ان میں طبقاتی، صنفی، قومیتی اور قومی حقوق کی تحریکیں شامل تھیں۔ ان تحریکوں میں بڑے بڑے سیاسی رہنماؤں نے جنم لیا لیکن کوئی بھی ان تحریکوں کو منظم عوامی تحریک کی شکل نہ دے سکا۔ 

فیلڈ مارشل ایوب خان کی کابینہ کے ایک نوجوان رکن ذوالفقار علی بھٹو نے اس کابینہ سے استعفیٰ دیا تو برطانیہ کے اس عہد کے سب سے بڑے اور معتبر سیاسی فلسفی برٹرینڈرسل نے یہ اعلان کیا کہ تیسری دنیا میں ایک بڑے سامراج دشمن لیڈر ذوالفقار علی بھٹو پیدا ہو گئے ہیں۔ دنیا نہ صرف انکی سیاست کی حمایت کرے بلکہ ان کی زندگی بچانےکیلئے ابھی سے کوششیں شروع کر دے۔

بھٹو نے پاکستان میں چلنے والی تمام ترقی پسند اور قوم پرست تحریکوں کو ایک منظم شکل دی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت قائم کی۔ اس کے بعد 52سالوں میں آج تک پاکستان کی سیاست پیپلز پارٹی کی حمایت اور مخالفت میں صف آرا ہو گئی ہے۔ 

اس کے بعد پاکستان کی سیاست میں پیپلز پارٹی مخالف پاکستان قومی اتحاد کی سیاست تاریخ میں اپنی فطری بے توقیری اور سازشی منصوبہ بندی کے ساتھ بے نقاب ہو گئی۔ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں کئی مسلم لیگیوں کو قائم کیا گیا۔ ا ٓخر میں میاں نواز شریف کو پیپلز پارٹی کی قیادت کے مقابلے میں لیڈر کے طور پر پیش کیا گیا۔ 

آج وہی نواز شریف پیپلز پارٹی کے کیمپ میں شامل ہیں۔ میاں نواز شریف کے بعد عمران خان کو متبادل لیڈر کے طور پر پیش کیا گیا لیکن ان کی سیاسی مقبولیت میاں نواز شریف کے مقابلے میں چھ ماہ تک بھی برقرار نہ رہ سکی۔ اب پیپلز پارٹی مخالف قوتیں اپنے تجزیوں اور پروپیگنڈا کے جال میں پھنسی ہوئی ہیں۔

پیپلز پارٹی اپنے وجود کی نصف صدی سے دو سال زیادہ مکمل کر چکی ہے۔ یہ سوال پہلے دن سے کیا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کیا اپنا وجود برقرار رکھ سکے گی؟ تاریخ کے دو بڑے اور تلاطم خیز عہد سے نکلنے کے بعد پیپلز پارٹی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔ پھر بھی مذکورہ بالا سوال موجود ہے۔ اس سوال کا جواب عہد جدید کی تاریخ میں دیا گیا ہے۔ 

جس میں سیاسی جماعت نے اپنی اساس پر قائم رہتے ہوئے زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق عوام سے اپنا رشتہ قائم رکھا، وہ جماعت آج بھی قائم ہے۔پیپلز پارٹی آج وہ نہیں ہے، جو 30نومبر 1967کو تھی۔ اب وہ سندھ میں قوم پرستی کی بنیاد پر پناہ لے رہی ہے۔ 

اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی کو اپنی پالیسیوں او ربیانیہ پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مظفر آباد میں جلسہ عام میں خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے اساسی چار اصولوں پر قائم رہنے کا اعلان کیا لیکن پیپلز پارٹی کو اپنے کارکنوں اور اپنے نظریاتی ساتھیوں کی مدد سے اپنی پالیسیوں، اپنی ساخت اور حکمت عملی پر نظرثانی کرنےکیلئے دانشورانہ ریاضت کی ضرورت ہے۔ 

اگر ایسا نہ کیا گیا تو پیپلز پارٹی کو سندھ تک محدود کرنے والی قوتیں اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکتی ہیں لیکن پاکستان اس وقت جن حالات سے دوچار ہے، پیپلز پارٹی کے سوا کوئی سیاسی جماعت اسے ان حالات سے نہیں نکال سکتی۔

تازہ ترین