• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹیم چل رہی ہے نہ تدبیر،کوچ کام آرہے ہیں اور نہ ہی نیا کپتان،بولرز ہتھیار پھینک رہے ہیں تو بیٹسمین اٹھانے کو تیار نہیں،پاکستانی کیمپ میں کیا ہورہا ہے، ہرکوئی سمجھنے سے قاصر ہے،آسٹریلیا میں مسلسل ٹیسٹ شکستیں ،پانچویں مسلسل سیریز میں کلین سویپ کی رقم ہوتی تاریخ کیا پیغام دے ر ہی ہے۔برسبین ٹیسٹ میں شکست سے سلیکشن پر سوالات اٹھے تو محمد عباس کو واپس لایا گیا مگر باقی تجربہ وہی تھا،نسیم شاہ کی جگہ ایک اور ڈیبیو محمد موسیٰ،باقی کوئی فرق نہ رہا،آسٹریلیا جیسے دورے میں پاکستان نے جن بولرز کو فیلڈ میں اتارا ان کا مجموعی ٹیسٹ ریکارڈ آسٹریلیا کے ایک بولر سے بھی کم تر تھا۔

یاسر شاہ کے 36 ٹیسٹ،207 شکار ،محمد عباس کے 14میچز،66وکٹ،شاہین آفریدی کے 4میچز میں 14 وکٹ،عمران خان کے 10 میچز میں 29 وکٹیں، ٹیسٹ کیپ لینے والے بولرز نسیم شاہ اور محمد موسیٰ بنا ٹیسٹ کھیلے آسٹریلیا میں اترے۔ان بولرزکے 64 ٹیسٹ بنتے ہیں اور 316وکٹیں ان کے نام تھیں، دوسری جانب مچل اسٹارک کی 53 میچز میں 222وکٹیں،نیتھن لائن کی 92میچزمیں 365وکٹیں،ہیزل ووڈ کی 49میچزمیں 190 اورپیٹ کمنز کی 26 میچز میں 128 وکٹیں۔

بیٹنگ میں اظہر علی اور اسد شفیق جیسے تجربہ کارموجود تھے لیکن لگتا ہے کہ حسب سابق اظہر علی پھر کپتانی کا اضافی دبائو سر پر لے گئے اور چاروں اننگز میں ناکام رہے،شان مسعود،امام الحق جیسے کھلاڑی مچل اسٹارک اور ہیزل ووڈ کے لئے بہترین کھلونا بنے رہے۔

پاکستانی ٹیم ماضی کی کمزور ترین ٹیموں میں سے ایک ہے جو آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز کھیلنے گئی ، کپتان اظہر علی کو بولرز کا درست استعمال کیوں نہیں آیا،ان کے پاس پلان اے،بی اور سی کیوں نہیں تھا،کیا بورڈ کےپاس بھی یہی صورتحال ہے،اطلاعات ہیں کہ اسپنرز کی ٹریننگ کے لئے مشتاق احمد کو لایا جارہا ہے،بیٹسمینوں کے لئے یونس خان اور محمد یوسف جیسے پلیئرز کی خدمات لی جائیں گی جبکہ ہیڈ کوچ جمع چیف سلیکٹر مصباح الحق منفی ایک عہدہ ہورہے ہیں تو کیا ایسی تبدیلیاں کار آمد ہونگی؟

ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کی یہ پہلی سیریز تھی اسکے بعد 5 باقی بچی ہیں، پاکستان کو 13 میچز میں سے 8 جیت کر فائنل کی ریس میں داخل ہونا ہے، اب باقی ماندہ میچز میں جیت اورصرف جیت درکار ہوگی اسلئے ٹیم سلیکشن اور کھلاڑیوں کی بہتر تربیت کی ضرورت ہے جس پر کوئی توجہ نہیں ہے ،وقار یونس کی کوچنگ کہاں دکھائی دی،یاسر شاہ پچھلے وورہ آسٹریلیا میں بھی خاصے مہنگے ثابت ہوئے تھے، یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے دوسرے ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں متعدد کیچز ڈراپ ہونے کے بعد سنچری مکمل کرلی ،یہ بلاشبہ ایک کارنامہ تھا ۔یہ سبق تھا ٹاپ آرڈر بیٹسمنوں کے لئے۔

ڈیوڈ وارنر کی ٹرپل سنچری ،لبوشین کی پھر سے سنچری پاکستانی بولروںکے لئے کسی طمانچے سے کم نہیں تھی اور اسکا سامنا کرنے والوں میں یاسر شاہ بھی شامل تھے۔پاکستان کی ناکامی کی بنیادی وجہ حد سے زیادہ تبدیلیاں ہیں،اس میں سب کچھ شامل ہے ،کپتان ،چیف سلیکٹر و کوچ اور منتخب اسکواڈکسی کوبھی ذمہ داری سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔وقار یونس کا کیا کام تھا اور کیا کیا؟مصباح کے ذمہ ایک نہیں 3 کام تھے جس سوال کا جواب بھی انہیں دینا پڑے گا کیونکہ ڈیوڈ وانر نے 2میچز کی 2 اننگز میں 489کی اوسط سے 489رنز بنائے ،کوئی بو لر ان کو آئوٹ نہ کرسکا،لبو شین نے 173کی اوسط سے 347 رنزبنائے۔

سری لنکا کے خلاف ہوم سیریز سر پر ہے،ناکامی پر شاید زیادہ تبدیلیاں نہ ہوں لیکن ہوم گرائونڈ پر سری لنکا کے خلاف جیتنا آسان نہیں ہوگا،اس لئے ڈومیسٹک کرکٹ کے ٹاپ پرفارمرز کو تھوڑا پالش کرکے آگے لانا ہوگا،بولنگ لائن میں بڑی تبدیلیوں کی ضرورت پڑے گی،ٹی 20 کا بولر ٹیسٹ کرکٹ نہیں کھیل سکتا اور محمد عامر جیسے بولر کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کو بھی تھوڑا سوچنا ہوگا کہ ایسا کیوں ہوا اور اسکا متبادل ہم کیوں تیار نہیں کرسکے۔

تازہ ترین
تازہ ترین