• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ نے یہ محاورہ کہ’’یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے‘‘ ضرور سُنا ہوگا اور موقع محل کی مناسبت سے اسے استعمال بھی کرتے ہوں گے۔ ’’آوا‘‘ کمہار کی اُس بھٹّی کو کہتے ہیں، جس سے کچّے برتن پکائے جاتے ہیں۔ جب کمہار کا آوا بگڑ جائے، تو کوئی برتن اُس میں سے صاف اور سیدھا نہیں نکلتا۔ آج کی اصطلاح میں اِسے’’ مینوفیکچرنگ فالٹ‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ 

یعنی جب آوا بگڑ جائے، تو پھر بگڑے برتن کو ٹھیک کرنے کی بجائے، پہلے آوے کو درست کرنا پڑتا ہے تاکہ اُس کی پروڈکشن درست ہوجائے۔ ہم تعلیم کی پراڈکٹ تو درست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن تعلیم کا آوا درست نہیں کر رہے۔دراصل، تعلیم کا آوا اپنی بناوٹ میں کثیرالجہت ہے۔ اسے درست کرنے کے لیے سنجیدہ ہونا پہلی اور اہم ترین شرط ہے۔ سنجیدہ ہونے کے معنی ہیں، پہلے خرابیوں کو سمجھا جائے تاکہ اصلاح کے کام کا تعیّن ہوسکے کہ کس سمت میں جانا اور کیا کرنا ہے۔ معاشرے میں ہر طرف تشدّد پھیلتا دِکھائی دے رہا ہے، جس کی وجہ تعلیم کی کمی بتائی جاتی ہے، مگر یہ جو تعلیم میں تشدّد پھیل رہا ہے، اس کے بارے میں ہم کیا کہیں گے؟ تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے تشدّد ہی کے ذریعے تعلیم پھیلائی جارہی ہو، تو اس آوے سے نکلنے والی پراڈکٹ بھی تشدّد کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے؟ لاہور، پاکستان کا جدید شہر ہی نہیں، تہذیب کا گہوارہ اور پنجاب کا دارالحکومت بھی ہے۔ 

جدید شہری معاشروں سے زیادہ مہذّب ہونے کی توقّع کی جاتی ہے، مگر وہاں کچھ عرصہ پہلے ایک نجی اسکول کے ٹیچر نے ایک طالبِ علم پر اس قدر تشدّد کیا کہ وہ جاں بحق ہوگیا۔ اگر یہ واقعہ کمرۂ جماعت میں ہوا، تو جن طلبہ نے اپنے ساتھی طالبِ علم پر استاد کے ہاتھوں تشدّد ہوتے دیکھا ہوگا، وہ اس واقعے سے کیا اثر لیں گے؟ اس استاد کا اپنے طلبہ میں کیا احترام رہے گا؟ دوسری جانب، آپ پولیس حراست میں ہلاک ہونے والے صلاح الدّین کا واقعہ دیکھ لیں۔ 

ایک مجذوب یا نیم مجذوب شخص کو یہ تفتیش کرتے ہوئے موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا کہ اُس نے اے ٹی ایم مشین توڑنے کا فن کہاں سے سیکھا؟ جب عوامی سطح پر کوئی احتجاج ہوتا ہے، تو عوام توڑ پھوڑ پر اُتر آتے ہیں۔ سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچا کر اُن کے کون سے جذبے کی تسکین ہوتی ہے؟ اس طرح کے بہت سے سوال معاشرے میں ہر وقت سَر اٹھاتے رہتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل فیس بُک پر ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا، جس میں ایک خاتون اپنی کار سے اُتر کر گرین بیلٹ سے پودے کا گملا اُٹھا کر لے جاتی دِکھائی دے رہی تھیں۔ یہ واقعہ اسلام آباد کا تھا۔ کچھ روز قبل ایک معروف کالم نویس نے اپنے کالم میں شکوہ کیا کہ’’ اَن پڑھ، ناخواندہ لوگوں سے ہم کیا شکایت کریں، جب تعلیم یافتہ اور مہذّب افراد پبلک مقامات پر ایسے رویّوں کا اظہار کرتے ہیں، جسے دیکھ اور سُن کر تعلیم اور تہذیب بھی سَر پیٹ لے۔‘‘

اگر لفظ تشدّد کا ذرا گہرائی سے جائزہ لیں، تو اس کی بے شمار شکلیں ہیں۔ تشدّد محض مارنے پیٹنے ہی کا نام نہیں، کسی کو ذہنی اذیّت میں مبتلا کرنا، ذمّے داری اور سکت سے زیادہ بوجھ ڈالنا، بچّوں، بوڑھوں اور عورتوں سمیت عوام کو دھوپ میں لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا کر کے اُن کے صبر کا امتحان لینا، حکم رانوں کا منہگائی پر منہگائی کرتے چلے جانا، بھاری بِلز کی وصولی کے باوجود عوام کو لوڈشیڈنگ کی اذیّت سے گزارنا، ٹی وی پر خاندانی زندگی برباد کرنے والے ڈرامے دِکھانا، لمبے دورانیے تک ٹی وی کمرشل دِکھائے چلے جانا وغیرہ بھی تشدّد ہی کی شکلیں ہیں۔ 

ہمارے تعلیمی اداروں میں تشدّد ہائی اسکول ہی تک پھیلا ہوا نہیں ہے، بلکہ اس کی کچھ شکلیں کالجز اور یونی ورسٹیز تک بھی پھیل چُکی ہیں۔ تعلیم میں جو جدید رُجحانات متعارف ہو رہے ہیں، وہ طلبہ کے لیے تو تکلیف کا باعث ہیں ہی، والدین کو بھی سخت مشکلات اور آزمائش میں ڈالنے کا موجب ہیں۔ یونی ورسٹی سطح کی تعلیم میں کچھ اِس نوعیت کے عملی کام یا پراجیکٹس داخل کردیے گئے ہیں، جن میں طلبہ کو مہینے بھر کے لیے گھر سے باہر فیلڈ میں رہنا پڑتا ہے۔ لڑکوں کے لیے تو کوئی مسئلہ نہیں، لیکن لڑکیوں کے معاملے میں والدین کس طرح بے فکر ہو کر مہینے بھر کے لیے اپنی بچّیوں کو فیلڈ وَرک کے لیے دیہات میں بھیج سکتے ہیں۔ پنجاب یونی ورسٹی کے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے تحت ایم اے سوشل ورک کے طلباء و طالبات کو ایک مہینہ گھر سے باہر رکھ کر ویلیج ٹریننگ دی جاتی ہے۔ 

خواہ حفاظت کے کیسے ہی انتظامات ہوں، لیکن یہ انتظامات بچّیوں کے والدین کو بے فکر کرنے کے لیے کافی نہیں ہوسکتے۔ آخر ہم اپنے نظامِ تعلیم میں ایسی اختراعات کیوں لا رہے ہیں، جو ہمارے تعلیمی کلچر سے تعلق رکھتی ہیں اور نہ ہی ہمارا تہذیبی و معاشرتی میلان اس کی اجازت دیتا ہے۔لاہور ہی کے ایک تعلیمی ادارے کی ٹیکسٹائل فیشن ڈیزائننگ کی طالبات یہ شکایت کرتی پائی گئیں کہ اُنھیں کچھ مخصوص پراجیکٹ پر اس قدر کام دیا جاتا ہے کہ اُن کی وقت پر تکمیل ممکن نہیں ہوپاتی۔

نیز، پراجیکٹس کے لیے بہت سی چیزیں بازار سے بھی خریدنی پڑتی ہیں۔ ٹیچرز کو کام کی نوعیت اور وقت کا اندازہ نہیں ہوتا اور وہ طالبات کی بے عزّتی کرتی رہتی ہیں۔ پھر پرنسپل کے پاس پیشی بھی کرواتی ہیں، جہاں مزید بے عزّتی ہوتی ہے۔لاہور ہی کی ایک معروف اور قدیم یونی ورسٹی کے ایک ڈیپارٹمنٹ کے طلباء و طالبات نے بتایا کہ ان کے ڈیپارٹمنٹ میں کوئی ٹیسٹ شیڈول ہے، نہ ہی متعیّن نصابی کُتب۔ ٹیچرز جب چاہیں، جہاں سے چاہیں، ٹیسٹ لینے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات تو ٹیسٹ لینے سے پہلے ہی اعلان کردیا جاتا ہے کہ’’ جو مرضی کرلو، تمھیں فیل کرنا ہے۔‘‘ایک طالبہ نے اس طرح کے رویّے کے خلاف یہاں تک کہہ دیا کہ’’ وہ خودکُشی کرلے گی۔‘‘ اساتذہ کا یہ رویّہ طلبہ میں معلّمین اور تعلیم دونوں ہی کے لیے نفرت پیدا کردیتا ہے۔ ممکن ہے، اس رویّے کو تشدّد تو نہ کہا جائے، تاہم اسے ظلم کا نام تو ضرور دیا جاسکتا ہے۔

تعلیمی کلچر کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم کو ہر ذریعے سے آسان اور سہل بنایا جائے۔ والدین کو ایسی آزمائش میں نہ ڈالیں کہ وہ اپنے بچّوں کے تعلیمی تسلسل کو برقرار نہ رکھ سکیں۔ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ میں تعلیمی بورڈز، ٹیوشن سینٹرز، اینٹری ٹیسٹ نے مل جُل کر طلبہ، بالخصوص طالبات کو جس ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی کش مکش میں ڈالا ہوا ہے، وہ ہر شہر اور محلّے کی کہانیاں ہیں۔ ذہین طلباء و طالبات جھولی بھر کر نمبر لینے کے باوجود اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے سے محروم ہیں۔ کالج، یونی ورسٹی کی سطح پر فیسز کے ہوش رُبا پیکجز بھی ایک الگ پُرتشدّد مسئلہ ہے۔ نجی جامعات کے تعلیمی اخراجات سے متعلق تو ایک عالم گواہ ہے، لیکن اب تو سرکاری یونی ورسٹیز کے فیس پیکجز بھی لاکھوں روپے تک پہنچ چُکے ہیں۔ گویا حکومتوں نے ہر لحاظ سے والدین کی کمر توڑنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ زیادہ تر سرکاری اور نجی اسکولز افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ 

دیہات میں پرائمری اور مڈل اسکولز کی ایکڑوں پر مشتمل عمارتیں ہیں، مگر سہولتیں ندارد۔ اس کے مقابلے میں شہری علاقوں میں مڈل کلاس کے شوقِ تعلیم سے مالا مال پرائیویٹ اسکولز کی ناکافی عمارتوں میں بچّے اُبلے پڑتے ہیں، مگر یہاں لائبریری، لیبارٹری اور کھیل کے میدان خال خال ہی نظر آئیں گے۔ علاوہ ازیں، ٹیچرز کے حوالے سے بھی مختلف خبریں آتی رہتی ہیں۔ کسی جگہ پورے اسکول میں صرف ایک ہی استاد ہے، کہیں استاد سِرِے سے ہے ہی نہیں، بس عمارت ہے اور بچّے ۔ اگر کہیں ٹیچرز ہیں بھی، تو وہ غیر حاضر ملیں گے۔ اگر حاضر ہوں، تو توجّہ سے پڑھاتے نہیں یا پڑھا ہی نہیں سکتے۔ ایک ٹی وی پروگرام کے میزبان نے سندھ کے کچھ اسکولز کا دورہ کیا، جس کے دوران سائنس کے اساتذہ سے پانی کا فارمولا پوچھا، تو اُنھیں اس کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔ حالاں کہ پانی کے اس فارمولے کے بارے میں شاید سائنس نہ جاننے والے بھی جانتے ہیں۔ 

صوبہ سندھ کے حوالے سے ماہِ ستمبر کے شروع میں یہ خبر بھی آئی کہ وہاں تقریباً ایک لاکھ گھوسٹ اساتذہ تن خواہیں لے رہے ہیں۔ سندھ حکومت نے جوش میں آکر اٹھارہ ہزار ٹیچرز کو شوکاز نوٹس جاری کردیے۔ یہ خبر کسی غیر مصدّقہ یا کم زور ذریعے سے سامنے نہیں آئی، بلکہ صوبائی وزیرِ تعلیم، سردار احمد شاہ نے کراچی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے خود اس حقیقت کا انکشاف کیا۔ وزیر موصوف کا یہ بھی کہنا تھا کہ’’ سندھ کے ایک لاکھ، 34 ہزار ٹیچرز میں سے صرف 34 ہزار اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں۔‘‘ اس سے قبل سندھ کے وزیرِ اعلیٰ، مُراد علی شاہ بھی یہ بتا چُکے ہیں کہ صوبے کے6,900 اسکولز چھتوں سے محروم ہیں۔ دیگر صوبوں کا حال بھی اس سے مختلف نہیں، کیوں کہ وہ بھی آوے میں شامل ہیں۔

پنجاب حکومت نے تعلیم کی بہتری کے لیے ایک دَس نکاتی ضابطۂ اخلاق جاری کیا ہے، جس پر عمل درآمد کا ذمّے دار اسکول کے سربراہ کو ٹھہرایا گیا ہے۔ اگر اس پر عمل درآمد نہ ہوا، تو ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر فوری کارروائی کا مجاز ہوگا۔ رپورٹ ماہانہ بنیادوں پر چیف سیکرٹری کی وساطت سے وزیرِ اعلیٰ کو بھجوائی جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا محض نگرانی کسی معلّم کو غیر ذمّے دار سے ذمّے دار بناسکتی ہے؟ جس استاد کو ابھی بھی احساس نہیں ہوا کہ قوم کا معمار ہونے کے کیا معنی ہیں اور اس کے کام کی نوعیت کیا ہے، وہ نگرانی کے ڈر سے یک دَم کیسے فرض شناس اور اعلیٰ اقدار کا حامل ہوجائے گا؟ پہلے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ ٹیچر بھی ہے یا نہیں۔ کہیں جمہوریت کے حُسن کو سُرخی پاؤڈر لگانے والی سیاسی جماعت کے کسی ورکر کو مفت کی تن خواہ دِلانے کے لیے محکمۂ تعلیم میں ایڈجسٹ تو نہیں کیا گیا؟ سندھ میں تو زیادہ تر ایسے ہی واقعات سُننے کو ملتے ہیں۔ 

اس لیے معاملہ محض نگرانی سے سدھرنے والا نہیں۔ نگرانی کے ایسے ضوابط تو کسی نہ کسی شکل یا نام سے پہلے بھی موجود رہے ہیں۔ پہلے کیا چیف سیکرٹری یا وزیرِ اعلیٰ نہیں ہوتے تھے؟ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ وہ استاد کیسے تعلیم دے سکتا ہے، جسے طلبہ سے زیادہ خود تعلیم کی ضرورت ہو۔ پنجاب حکومت نے نگرانی کے عمل میں چیف سیکرٹری اور وزیرِ اعلیٰ کے نام محض رعب و دبدبے کے لیے ڈالے ہیں، وگرنہ وزیرِ اعلیٰ اور چیف سیکرٹری بھی تو اسی آوے کا حصّہ ہیں۔

ضرورت اس اَمر کی ہے کہ تعلیم، بالخصوص اسکول ایجوکیشن کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی وضع کی جائے، جو رسائی، معیار، سہولتوں، تربیتِ اساتذہ، ذریعۂ تعلیم، وسائل کی تقسیم سمیت تمام اہم موضوعات کا احاطہ کرے۔ یہ حکمتِ عملی طویل اور قلیل مدّتوں پر محیط ہو، جس کا ہر کچھ عرصے بعد تنقیدی(critical) اور تنفیذی (executional)جائزہ لیا جاتا رہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ حکومت اور اپوزیشن نئی نسل کے لیے قومی اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ابتدائی تعلیم کے لیے متفّق ہوجائیں۔ نئی حکومت کے عزائم میں تعلیم سرِفہرست تھی، مگر ایک سال گزرنے کے باوجود قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اس موضوع پر کوئی سنجیدہ اور باقاعدہ بحث دیکھنے میں نہیں آئی۔ کم از کم تعلیم کے معاملے میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین سیاسی شعور کا مظاہرہ تو ہونا ہی چاہیے۔ شاید اسی طرح ہم ایک خُوب صُورت، روشن اور خوش حال پاکستان کی طرف ابتدائی پیش قدمی کرسکیں۔

تازہ ترین