• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:بیلی کونسلر محمد حنیف راجہ۔۔گلاسگو
کسی بھی برائی کے خاتمے کیلئے سب سے پہلے اس کی موجودگی اور اس کے نقصانات کو پہچاننا اور تسلیم کرنا ضروری ہوتا ہے، اگر ہم اس برائی کو کارپٹ کے نیچے چھپاتے رہیں، یا اس برائی پر ڈھیٹ بن جائیں تو تدارک ممکن نہیں ہوتا، نسل پرستی اور اسلاموفوبیا نہ صرف اسکاٹ لینڈ اور برطانیہ بلکہ پوری مغربی دنیا میں ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے اور اس کو پھیلانے میں تقریباً تمام ہی سیاسی پارٹیوں اور میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے، یوں تو یہ برائیاں ہمیشہ سے ہی معاشرے میں موجود رہی ہیں لیکن 9/11کے واقعہ کے بعد اسلامو فوبیا اور بریگزٹ کے ریفرنڈم کے بعد نسل پرستی میں ایک دم کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور اس سے نسلی اقلیتوں کا کوئی بڑے سے بڑا فرد بھی محفوظ نہیں رہا، چاہئے وہ موجودہ وزیر خزانہ ساجد جاوید ہوں، سکاٹ لینڈ کے جسٹس سیکرٹری حمزہ یوسف یااسکاٹس پار لیمنٹ میں لیبر کے ہیلتھ سیکرٹری انس سرور سبھی کسی نہ کسی مشکل میں کسی نہ کسی وقت اس کا شکار بن چکے ہیں، برطانیہ میں امیگرنٹس کی پرانی نسل تو نسل پرستی کے بارے میں یہ سوچ کر خاموشی اختیار کرلیتی تھی کہ ہم تویہاں صرف ایک محدود مدت کیلئے آئے ہیں اور ایک مخصوص رقم جمع کرکے ہم نے بالآخر اپنے وطن چلے جانا ہے لیکن مغرب میں پیدا شدہ نئی نسل اب اس رویئے کو کسی بھی صورت برداشت کرنے کو تیار نہیں، بورس جانسن جو کہ لندن کے میئر اور وزیر خارجہ بھی رہ چکے ہیں، چند سال پیشتر انہوں نے ڈیلی ٹیلی گراف میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں برقع پہننے والی مسلم خواتین کا مذاق اڑاتے ہوئے انہیں لیٹر باکس یا بینک لوٹنے والے کسی ڈاکو سے تشبیہ دی گئی تھی، انکے اس بیان کے بعد مسلمانوں پر حملوں میں تقریباً چار گنا اضافہ ہوا، کنزریٹو پارٹی کی سابق چیئرپرسن سعیدہ وارثی بھی پارٹی میں تعصب کے رویئے پر شدید احتجاج کرچکی تھیں اور بالآخر فلسطین کے معاملے پر انہوں نے پارٹی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا، بورس جانسن نے پارٹی کے اندر اسلاموفوبیا کے بارے میں آزادانہ تحقیقات کرنے سے بھی انکار کردیا تھا لیکن اب بطور وزیراعظم احساس ذمہ داری کے باعث ان کا رویہ تبدیل ہوگیا ہے یا کہ انکی سوچ بدل گئی ہے، اپنے کارنیوال کے حالیہ دورے کے دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ کنزرویٹو پارٹی میں اسلاموفوبیا کے متعلق معافی مانگیں گے، تو انہوں نے اسکا جواب ’’یقیناً‘‘ میں دیا اور کہا کہ یہ سب کچھ ناقابل برداشت ہے، ہم ان چیزوں کی اجازت نہیں دے سکتے اور ہم اس سلسلہ میں مکمل آزادانہ تفتیش کریں گے، سیاستدانوں کی طرح میڈیا بھی اسلاموفوبیا اور نسل پرستی پھیلانے میں برابر کا ذمہ دار ہے، وہ صرف سنسنی خیز خبر بنانے کیلئے ایسے لوگوں کو مسلمانوں کے نمائندوں کے طور پر پیش کرتا رہا جن کے انتہا پسندانہ خیالات کا 99.9 فیصد مسلمانوں سے کوئی تعلق نہ تھا، داڑھی والوں کو ایک دہشت گرد کی طرح پیش کرتا رہا، یورپ کے 50ملکوں میں تقریباً 5کروڑ مسلمان ہیں جو کہ آبادی کا صرف 5فیصد بنتے ہیں لیکن میڈیا نے اس طرح کا جھوٹا پروپیگنڈا کرکے خوف پھیلایا کہ مسلمانوں کی آبادی جس تناسب سے بڑھ رہی، یہ لوگ 2050 تک یورپ پر قبضہ کرلیں گے، اسی طرح مسلمانوں اور اسلامی تہذیب کے بارے میں بے بنیاد باتیں گھڑی جاتی ہیں، برطانیہ کی مسلم کونسل آف برٹین، ٹیل ماما TELL MAMAاور دیگر بے شمار مسلم تنظیمیں اسلاموفوبیا اور نسل پرستی کیخلاف جدوجہد کرتی رہی ہیں لیکن معاشرہ نسل پرستی اور اسلاموفوبیا کو نہ صرف برداشت کر رہا تھا بلکہ ایک طرح سے ان برائیوں کو معاشرے میں قبولیت تک کا درجہ حاصل ہوچکا تھا، سکاٹ لینڈ میں ان نعمتوں کو ختم کرنے کیلئے اسکاٹس پارلیمنٹ میں لیبر پارٹی کی طرف سے شیڈو ہیلتھ سیکرٹری اور پارٹی کے سابق قائم مقام چیئرمین انس سرور نے پارلیمنٹ میں اسلاموفوبیا اور نسل پرستی پر ایک کراس پارٹی گروپ بنایا، ایک زبردست مہم چلائی، زندگی کے ہر شعبے کے افراد کو پارلیمنٹ میں بلا کر اجلاس منعقد کئے اور ان لعنتوں کو ختم کرنے کیلئے زور دیا، انس سرور نے میڈیا کے سینئر ترین افراد کو بھی پارلیمنٹ میں بلایا اور میڈیا میں اسلام کے متعلق رپورٹنگ کیلئے دنیا میں اپنی قسم کی پہلی گائیڈ لائن تیار کی، انکی اس مہم کے بہت شاندار نتائج برآمد ہوئے ہیں یہ مسئلہ اتنا اجاگر ہوا ہے کہ آئندہ الیکشن میں حصہ لینے والے افراد کے مذہب اور نسل پرستی کے متعلق کردار کی کڑی چھان بین کی گئی اور تین بڑی جماعتوں کنزریٹو پارٹی، لیبر پارٹی اور اسکاٹش نیشنل پارٹی نے اسلاموفوبیا، اینٹی سمیٹک رویئے اور نسل پرستی کے متعلق ماضی میں بیانات دینے، فیس بک پر پوسٹ لگانے، اسے شیئر یا لائیک کرنے کے الزامات میں چار پارلیمانی امیدواروں سے ٹکٹ واپس لے لئے ہیں، یہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہے جس سے تمام سیاستدان محتاط ہوگئے ہیں اور مستقبل پر اسکے گہرے اثرات مرتب ہوں گے، برطانیہ معاشرہ مختلف اقدار کے لحاظ سے دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ معاشروں میں سے ایک ہے، برطانیہ نے سائنس کے میدان میں بے شمار ایسی ایجادات کی جن سے پوری دنیا فیض یاب ہو رہی، ٹیلی فون، بجلی کا بلب، ٹیلی ویژن، ٹیلی سکوپ، الیکٹرک موٹر، سیمنٹ، فوٹو گرافی، لیدر کرافٹ، ورلڈ وائیڈ ویب، ٹیم ٹربائن، ملٹری ٹینک، سٹین لیس اسٹیل، اے ٹی ایم مشین غرض کہ بے شمار ایجادات کی، دنیا کی پہلی ٹرین بھی سٹاکسٹن سے ڈارلنگٹن کو چلی، مغرب میں انسانی حقوق کا پہلا چارٹر میگنا کارٹا 1205 میں برطانیہ میں ہی منظور ہوا، اب توقع کی جاسکتی ہے کہ پورے یورپ اور دنیا میں انسانی اقدار اور برابری کا سرخیل بھی برطانیہ ہی بنے گا۔
تازہ ترین