• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 28نومبر کو افغانستان کے اچانک اور پہلے دورے کے موقع پر بگرام ایئربیس پر امریکی فوجیوں اور صدر اشرف غنی سے ملاقات کے دوران طالبان سے دوبارہ مذاکرات کرنے کا جو عندیہ دیا تھا، اب اس کے 6روز بعد ہی امریکہ کی طرف سے ایک نئی پیش رفت زلمے خلیل زاد کے دورۂ کابل کی صورت میں اس وقت سامنے آئی ہے جب انہوں نے کابل پہنچتے ہی طالبان سے مذاکرات کی بحالی کی نوید سنائی۔ یہ صورتحال اس لیے باعث ِ اطمینان اور حوصلہ افزا دکھائی دے رہی ہے کہ پچھلے مذاکرات کے موقع پر فریقین امن معاہدہ پر دستخط کرنے کے قریب پہنچ چکے تھے لہٰذا امریکہ اور طالبان کا ان وجوہات کا ازالہ کرنا ایک منطقی بات ہے جو مذاکرات ختم کرنے کا باعث بنی تھیں۔ اب کابل کی قیادت سے ملاقاتوں کے بعد زلمے خلیل زاد کی اگلی منزل قطر ہے جہاں وہ طالبان سے مذاکرات کریں گے۔ اُن کے بقول اس بات چیت کا ایجنڈا تشدد میں کمی ہے جو جنگ بندی کا باعث بنے گی تاکہ معاملات طے پانے کے لئے فضا سازگار ہو سکے جس کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اچھا معاہدہ ہوگا۔ صدر ٹرمپ اور زلمے خلیل زاد کے متذکرہ دوروں سے سامنے آنے والی صورتحال اس اعتبار سے پاکستان کے لئے حوصلہ افزا کہی جا سکتی ہے کہ وہ افغانستان میں امن کے قیام اور مذاکرات کے لئے سہولت کاری کرتا رہا ہے اور اپنے برادر ہمسایہ ملک میں جس قدر جلد امن قائم ہوگا اتنا ہی جلد پاکستان کو اپنے بعض مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔ تاہم امریکی فوج کے انخلا کے بعد ممکنہ سنگین مسائل سے بچنے کے لئے پُرامن سیاسی عمل کی بحالی امن مذاکرات کی اصل کسوٹی ہے جس کے لئے ضروری ہوگا کہ ممکنہ اثرات سے بچنے کی پیشگی تدابیر اختیار کی جائیں۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین