• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اصولی طور پر تو الیکشن کمیشن جیسے اہم ترین آئینی ادارے کے معاملات میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین افہام و تفہیم اور اتفاق رائے کی مثالی فضا استوار ہونی چاہئے تاکہ سول سیٹ اپ کے تسلسل کے لئے انتخابی عمل میں کسی بھی موقع پر کوئی رکا وٹ پیدا نہ ہو سکے۔ پہلے چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے ارکان کے تقرر میں کلی طور پر وزیراعظم کو اختیار حاصل تھا جس پر الیکشن کمیشن حکومت کے لئے جانبداری کے الزامات کی زد میں آتا رہا۔ چنانچہ الیکشن کمیشن کو خود مختار بنانے کے لئے آئین کی 18ویں ترمیم کے تحت حکومت اور اپوزیشن کی بامقصد مشاورت سے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کا تقرر کا طریقہ کار طے ہوا مگر بدقسمتی سے اندھی سیاست میں حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے اس آئینی طریقہ کار کو بھی رگیدا جانے لگا، اسی بنیاد پر جسٹس فخر الدین جی ابراہیم چیف الیکشن کمشنر کے عہدے سے مستعفی ہوئے اور پھر دوسری نیک نام شخصیات نے یہ منصب قبول کرنے سے معذرت کی تاہم جسٹس (ر) سردار رضا خان نے حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق رائے قائم ہونے کی بنیاد پر چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ قبول کر لیا۔

جمہوری ملک میں عوام کی خوشحالی کے لئے جمہوری استحکام ضروری ہے اور اس کے لئے حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان سیاسی تنازعات نے جو مسائل پیدا کئے اس سے آج بھارت اپنی جعلی کارروائیوں سے مذموم مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ انتہائی شرمناک پہلو ہے کہ جیسے ہی کوئی پارٹی ہمارے یہاں اقتدار میں آتی ہے اپوزیشن سب سے پہلے اس کی خوبیاں تو سرے سے نہیں، صرف کمزوریوں کا ڈھنڈورا عالمی سطح تک پیٹتی ہے جس سے دوسرے ممالک بھی آنے والے حکمرانوں کے بارے میں اچھے فیصلے نہیں کر پاتے۔ آج اقتدار اور مفادات کی جنگ میں حکومت اور اپوزیشن اسی طرح دست و گریباں ہیں۔ اس سیاسی جملے بازی میں اخلاقی، جمہوری اور پارلیمانی اقدار کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا بلکہ ایک دوسرے کے ذاتی کرداروں کو بھی تنقید کا نشانہ بنا یا جاتا ہے۔

اس وقت بھی صورتحال یہی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار رضا خان 5دسمبر سے ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔ 6دسمبر سے الیکشن کمیشن غیر فعال ہو چکا۔ سیاسی جماعتیں اگر اپنے مسائل ہی پارلیمنٹ میں حل نہیں کرا سکتیں تو پھر 22کروڑ عوام کے مسائل کیسے حل کر سکیں گی۔ اِس سے قبل سندھ اور بلوچستان کے اراکین الیکشن کمیشن کی نشستیں خالی ہیں کیونکہ قائد حزبِ اقتدار اور قائد حزبِ اختلاف کے درمیان مشاورت ممکن نہیں ہوئی۔ حکومت کی طرف سے بعد ازاں از خود دونوں ارکان نامزد کر دیے گئے تھے اور معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ تک جا پہنچا۔ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے اس حوالے سے ریمارکس دیے اور معاملہ سینیٹ کے چیئرمین اور اسپیکر قومی اسمبلی کے سپرد کر دیا گیا اور ہدایت کی گئی کہ وہ اس عمل کو مکمل کرائیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے سرکاری طور پر نامزد کیے گئے اراکین سے حلف نہیں لیا تھا۔ اب چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر نے افہام و تفہیم کا عمل شروع کیا ہے۔ قائد ِ ایوان وزیراعظم عمران خان سے نام مانگے اور دوسری جانب قائد حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف سے بھی نام طلب کیے۔ خبر ہے کہ دونوں طرف سے سندھ اور بلوچستان کے اراکین کی نامزدگی کے لئے تین تین نام تجویز کر دیے گئے ہیں، جو ثالثی جوڑی کو موصول ہو گئے ہیں۔ تاہم مزید بہتری کی بات یہ ہے کہ چیئرمین کے لئے بھی تین تین نام تجویز کر کے چیئرمین اور اسپیکر کو بھجوا دیے گئے ہیں۔ قائد حزبِ اختلاف نے چیئرمین کے لئے ناصر محمود کھوسہ، جلیل عباس جیلانی اور اخلاق احمد تارڑ کے نام بھجوائے جبکہ وزیراعظم (قائد ایوان) عمران خان نے ابھی صرف سندھ اور بلوچستان کے اراکین کے لئے نام بھیجے ہیں۔ آئینی طور پر الیکشن کمیشن کے اراکین اور چیئرمین کی نامزدگی کے لئے قائد ایوان اور قائد حزبِ اختلاف کی بامعنی مشاورت لازم ہے لیکن محاذ آرائی کے اس دور میں یہ ممکن نہ ہوا، اب پھر سے عمل شروع کیا گیا ہے۔ توقع تھی کہ اب کوئی تنازع نہیں کھڑا ہوگا۔ چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کوئی راستہ نکال لیں گے مگر اراکین کا تقرر نہ ہوا اور چیف الیکشن کمشنر بھی اپنی آئینی مدت پوری کرکے 6دسمبر کو ریٹائر ہو گئے۔ آئین کی شق 218(2)کے تحت الیکشن کمیشن5 افراد پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں ایک چیف الیکشن کمشنر اور چاروں صوبوں سے ایک ایک رکن شامل ہوتا ہے جبکہ شق 218(2)(ب) کے تحت ہی الیکشن کمیشن کے ارکان کی تعیناتی کا طریقہ کار وہی ہے جو آئین کی شق 218(A2)اور (B2)کے تحت الیکشن کمیشن کی تعیناتی کا ہے، یعنی وزیراعظم پاکستان کو الیکشن کمیشن یا ارکان کی تعیناتی کے لئے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سے مشاورت کرنی چاہئے۔

وزیراعظم عمران خان اس سلسلے میں بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومتی پارلیمانی کمیٹی کے ارکان کو موقف میں نرمی برتنے کا کہیں اور کوشش کریں کہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر ہی چیف الیکشن کمیشن اور اس کے دو ارکان کا تقرر ہو جائے۔ اب تو اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی 10دن میں ممبران کی تقرری کر نے کا حکم دے دیا ہے۔ سیاسی اختلافات اس سطح پر نہیں جانے چاہئیں جہاں حکومت اور اپوزیشن کے مابین ورکنگ ریلیشن شپ سرے سے ہی برقرار نہ رہے۔ اگر الیکشن کمیشن کا معاملہ عدالت کے ذریعے حل ہوا تو پھر ہر مسئلے کے لئے عدالت جانے کی روایت پڑ جائے گی جو جمہوریت اور جمہوری پارٹیوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہو گی۔ لہٰذا حکومت اور اپوزیشن باہمی افہام و تفہیم سے مسائل حل کریں یہی جمہوریت کا حسن ہے۔

تازہ ترین