• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حال ہی میں اسلام آباد کے ایک عالیشان ہوٹل میں ہونے والی شادی کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ میزبانوں نے شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یا شاید سابق وزیر ہونے کے ناتے مجھے خاص مہمانوں کے لیے مخصوص کی گئی ٹیبل پر بیٹھا دیا جہاں اونچی سوسائٹی کے افراد جن میں بزنس مین، ریٹائرڈ اعلیٰ افسران اور سیاستدان براجمان تھے۔ اس ٹیبل پر مہمان مختلف موضوعات پر گفتگو کر رہے تھے، کچھ ملک کی سیاسی و اقتصادی صورتحال پر اظہارِ خیال فرما رہے تھے جبکہ چند افراد کا موضوع بیرونِ ملک کی گئی انویسٹمنٹ اور وہاں رہائش پذیر بچوں کی مصروفیات تھیں۔ موجودہ حکومت کا گزشتہ حکومتوں کی کارکردگی سے موازنہ کیا جا رہا تھا۔ ڈالر کی قدر میں اضافہ، بیڈ گورننس، کرپشن اور مہنگائی جیسے موضوعات بھی زیرِ بحث تھے۔ صاف ستھری وردیوں میں ملبوس نوجوان بیرے ان وی آئی پی مہمانوں کو ٹیبل پر گرما گرم کھانا پیش کر رہے تھے کہ اچانک ایک ویٹر کے ہاتھ میں پکڑے گلاس سے کچھ پانی گھبراہٹ یا شاید ناتجربہ کاری کی وجہ سے ایک مہمان پر گر گیا جس پر اس معزز مہمان نے اونچی آواز میں اس ویٹر کو ڈانٹنا شروع کر دیا جبکہ قریب بیٹھے دوسرے مہمان بھی ہوٹل انتظامیہ اور اسٹاف کے گرتے ہوئے معیار کو حرفِ تنقید کا نشانہ بنانے لگے۔ بینکویٹ ہال کا منیجر معزز مہمان سے معافی مانگتا رہا اور وہ نوعمر خوبصورت ویٹر جو یقیناً کسی کالج میں زیرِ تعلیم ہوگا یا پڑھا لکھا بیروزگار، اپنی بیعزتی کروانے کے بعد آنکھوں میں نمی لیے خاموشی سے ایک طرف چلا گیا۔ مجھے وہ باتمیز، مودب وجیہ و شکیل بچہ امریکہ کی اعلیٰ درسگاہ میں پڑھتے اپنے بچے جیسا لگا اور دوسرے مہمانوں کے بچے سبھی ویسے ہی ہوں گے مگر دولت اور پاور کے نشے میں چور ان مہمانوں کا تحقیر آمیز رویہ میرے لیے ناقابل برداشت تھا۔ ان بے رحم لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر نوالہ لینا مشکل ہوگیا مجھے ابکائی آنے لگی اور میں وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔

ماضی کی حکومتوں کی شاہ خرچیوں اور وسائل کی غلط تقسیم و بندر بانٹ جبکہ موجودہ حکومت کی نا تجربہ کاری اور بعض غلط پالیسیوں کی وجہ سے عوام کی اکثریت مشکلات کا شکار اور غیر مطمئن نظر آتی ہے۔ اشرافیہ کی لوٹ مار کا تسلسل، ناکافی وسائل، طبقاتی، قومی اور لسانی تقسیم، راہبروں کی کج روی، جہالت اور بے ہنگم بڑھتی ہوئی آبادی ملک کو مزید اندھیروں میں دھکیل رہی ہے۔ ہم نے بحیثیت قوم نہ ماضی سے سبق سیکھا نہ ہمیں حال کی فکر ہے اور نہ ہی مستقبل کی پروا۔ ماضی قریب کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو عجیب تماشا نظر آتا ہے۔ جنرل مشرف گیارہ سال مطلق العنان حکمران رہے، عوام سے کوسوں دور اپنی بقا کی جنگ لڑتے رہے، اُن کے قریبی رفقا اور وزیر موجودہ سیاسی نظام کا حصہ ہیں مگر اپنے سابق لیڈر کا نام لینے سے ڈرتے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری غریبوں، مزدوروں اور کسانوں کی آواز اور ’’آس‘‘، اقتدار میں آنے کے بعد ایوانِ صدر کی بلند دیواروں کے پیچھے بیٹھ کر دوستوں کو نوازتے رہے اور ان کے نائبین مع اہل و عیال ملک کی خدمت میں شب و روز مصروف رہے۔ صدر زرداری چاہتے تو ملک کی کایا پلٹ سکتے تھے مگر ایسا ہو نہ سکا اور وقت کا بے رحم پہیہ آگے نکل گیا۔ مسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف تین دفعہ بڑی حد تک عوامی حمایت سے مسندِ اقتدار پر فائز ہوئے مگر اپنے چند عاقبت نااندیش مشیروں کے مشوروں اور اس سے بڑھ کر ’’اپنی‘‘ بےمقصد ضد اور اَنا کی وجہ سے نہ صرف اقتدار سے باہر ہوئے بلکہ قوم و ملک کے مستقبل کو بھی داؤ پر لگا دیا۔ میاں نواز شریف چاہتے تھے کہ جس رفتار سے ان کے خاندان نے ترقی کے زینے طے کیے ہیں، اسی رفتار سے ملک بھی ترقی کرے مگر ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے تاعمر سربراہ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف اپنی بیماریوں کی شدت سے نڈھال ہیں اور ملکی سیاست سے ان کا کردار تقریباً ختم ہونے کو ہے۔ تاہم انہیں یقین اور تسلی ہے کہ ان کی اگلی نسل آنے والے دنوں میں ان کی جگہ لینے کے لیے تیار ہو چکی ہے۔ موجودہ وزیراعظم عمران خان ملک، عوام اور آنے والی نسلوں کے لیے کچھ کر گزرنے کا عزم اور حوصلہ رکھتا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ اکیلا چومکھی لڑائی لڑ رہا ہے مگر بدقسمتی سے اس کے بیشتر ساتھی اس کے وژن، خلوص، کمٹمنٹ، صلاحیت اور رفتار کا ساتھ دینے کے قابل نہیں ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی ٹیم کی غلط سلیکشن، عدم توجہ یا صلاحیتوں کے فقدان کی وجہ سے ملک میں معاشی سرگرمیاں بہت کم ہو گئی ہیں جس کے نتیجے میں بیروزگاری اور مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے۔ سہولتوں میں کمی واقع ہو رہی ہے اور عوام میں بے یقینی اور مایوسی کی کیفیت طاری ہے۔ آخر میں حکمرانوں کیلئے فارسی میں عرض ہے کہ

تا تریاق از عراق آوردہ باشند مارگزیدہ مردہ باشد

تازہ ترین