• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:محمد علی عابد ۔۔۔برمنگھم
  پرانے زما نے میں جب تجا رت بڑے پیما نے پرپھیلی تو اس کے دو نتائج نکلے ایک تو کاروبار میں بہت لوگوں نے سرمایہ کا ری کی لیکن کچھ کاروبار نا کام ہو گئے اور لوگوں کا سرمایہ بھی ضا ئع ہو گیا اور بقایا سرمایہ جوکاروباری لوگوں کے ذمے رہا اور ادا نہ کر سکنے کی صورت میں جیل بھگتناپڑتی تھی ۔آج سے تقریباََدوسوسال پہلے یو رپی ممالک سے لوگ تجارت کے لئے نکل پڑے حکومت نے انہیں یہ رعایت دے دی کہ وہ کمپنی بنا لیں جو کاروبار کرنا شروع کر دے نقصان کی صورت میں کمپنی میں لگا یا ہوا سرمایہ بھی قرض خواہوں کو دیا جا سکتا تھا اور سرمایہ کاروں کے اثاثے مثلاََگھر ،دوکان وغیرہ اس دیوالیہ پن سے متاثر نہیں ہو تے تھے ۔ برطا نیہ سے جب بھارت میں ایسٹ انڈیاکمپنی آئی اور اس نئے کا رو با ر کرنا شروع کیا جب انہوں نے دیکھا کہ ملک میں افراتفری اور بے چینی ہے اور لوگ ایک دوسرے سے بر سرپیکار ہے تو انہوں نے مقامی لو گوں کو کمپنی میں بھر تی کر کے فو ج تیار کر لی جس نے تجا رت کے ساتھ ساتھ ریا ست بھی بنا نا شروع کردی۔یہ سلسلہ بنگال اورمیسور سے شروع ہوا ۔میسور میں حیدر علی کی حکومت تھی جس نے کمپنی کی فو جوں سے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان کے پائوں نہ جمنے دئیے ،حیدر علی کی وفات کے بعد ان کا بہادر بیٹا ٹیپو سلطان اپنے والد کی جگہ ریاست کا سربراہ بن گیااور اس نے انگریزوں کے ساتھ بڑی بہادری سے جنگ کی لیکن بد قسمتی سے مرہٹے اور نظام حیدر آباد فو ج کے ساتھ مل گئے جس کی وجہ سے ٹیپو سلطان کی فوج کو اس اتحاد سے نبرآزما ہو نا پڑا ۔حیدر آباد کے نظام نے ایک سازش کی اور ٹیپوسلطان کو اپنی ہمدردی کا یقین دلوا کر شہید کردیا۔یہی حا ل بنگال میں نواب سراج الدولہ اور نواب تیتو میر کے ساتھ ہوا ۔انگریز ی فو ج نے جہاں پنجے گاڑے سازش ہو تی رہی اور علا قے فتح ہو تے رہے ۔ ایک وقت آیا کمپنی کی فوج بہت طاقتور اور منظم ادا رہ بن گئی اور ساتھ ہی کمپنی نے تجارتی سرگرمیوںمیں بھی تیزی پیدا کر دی ۔برطانیہ کے سرمایہ کار ہندوستان میں تجارت کر نے لگے یہ چو نکہ غیر رویاتی سرمایہ کاری تھی اس لئے اس میں نا کامی کے کا فی مواقع مو جود تھے ان لوگوں کو حفاظت مہیاکرنے کے لئے دیوالیہ پن کا قانون بن گیا وقت کے ساتھ ساتھ کاروبار کی نو عیت میں تبدیلی آتی رہی اورنقصانات کے مواقع بھی پیدا ہو تے گئے اور ساتھ ہی عہدبڑا ہو نے کے لئے دیوالیہ پن کے قانون میں تبدیلیاں کرنی پڑی۔ جب کو ئی شخص ذاتی طو ر پر کاروبار کر تا تھا اور نا کا میاب ہو جا تا تھا تو اسے حکومت بر طا نیہ حفاظت مہیا کر تی تھی عام قانون نادہندہ شخص کو سزا کے طور پر قید کر دیتا تھا لیکن تاجروں کے لئے یہ سزا ختم کر دی گئی اور یہ سزا دی گئی کہ دیوالیہ شخص دس سال تک کو ئی جا ئیداد نہیں بنا سکتا تھااور نہ ہی کو ئی رقم بینک میں رکھ سکتا تھا اسے صرف اپنی محنت سے کما ئی ہو ئی تنخواہ پر گزارا کرنا پڑتا تھا۔ 1995 ء میں بینک کریسپی کی مدت دو سال کر دئی گئی اور دیوالیہ شخص دو سال بعد Oficial receiver سے دیوالیہ پن کی معا شی کمزوریوں کو ختم کرواسکتا تھا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب لوگوں نے دیوالیہ پن کو ایک تجارت بنا لی اور مارکیٹ سے ادھار لے کر اسے خودرد برد کر دیتے ہیں اور تجارت میں خسارے کا اعلان کر دیتے ہیں ۔یہودی کمیونٹی میں اب یہ نظریہ عا م ہے کہ جو شخص2 مر تبہ دیوالیہ نہیں ہوا وہ کاروباری ہی نہیں ۔ اب آتے ہیں Oficial Receiver کے دائرہ اختیار پر جب کو ئی شخص دیوالیہ ہو تا ہے تو آفیشل ریسیور اس کی منقولہ یا غیر منقولہ کاقانونی ما لک بن جاتا ہے ۔اس کا سٹاف دیوالیہ شخص کے اثاثوں کی فہرست بناتا ہے اور ان پر قبضہ کر لیتا ہے اور فروخت شروع کر دیتا ہے۔ دوسری طرف اس کے قرض خواہوں کے واجبات کا تعین کر تا ہے جب تمام اثاثے فروخت ہو جا تے ہیں تو ان سے وصول ہو نے والی رقم قرض خواہوں کے واجبات کے نسبت سے بانٹ دیتے ہیں بعض اوقات رقم اتنی کم ہو تی ہے کہ جو جا ئز اخراجات بھی پورے نہیں کر تی جنہیں Ofical Receiver کا محکمہ اپنے کھاتے میں ڈال دیتاہے ۔ ہما رے ہاں سب سے بڑے قرض خواہ IMF نے ہماری حکومت کے قرض اتارنے کی صلاحیت اور دولت پیداکرنے کی اہلیت کو مشکوک جان کر اور حکومت سے مل کر معیشت سے متعلق ادارے اپنے قبضے میں کر لئے ہیں۔ اس کو چونکہ عوام کو کو ئی جواب نہیں دینا پڑتا اس لئے یہ عوام کی فلاح کے منصوبے نہیں بناتا بلکہ اپنے قرض کی وصولی کو یقینی بنا تاہے ۔پاکستان کے ساتھ یہ زیادتی پرویز مشرف کے دور میں بھی ہو ئی تھی انہوں نے بھی ورلڈ بینک کے نمائندہ شو کت عزیز کو وزیر اعظم بنا یا تھا ۔ حکو مت کو چا ہیے کہ وہ IMF سے عوامی سہولت اور بہتری کے منصو بے بنوائے ،کا رو با ری لو گوں کو سہو لتیں دے اور شرح سو د کم از کم آدھی کرے تا کہ ملک میں کا رو با ری اور صنعتی ادارے کا م کر سکیں ۔موجو دہ دو ر میں ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز 50 سے زائد ہے، ان کی اصلاح بھی بہت ضروری ہے یہ ملک کی تر قی اورمعیشت میں روڑے اٹکاتے ہیں، فضول ٹیکسوں کو کم کیا جائے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ نئے سے نئے ٹیکس لگ رہے ہیں اگر ملک میں کاروبار نہیں ہو گا تو ملک کی GDP بھی نہیں بڑھ سکے گی موجودہ حکومت کے آنے سے پہلے GDP چھ فیصد تک پہنچ گئی تھی جس سے ہما رے قرضے اتر سکتے تھے آج کل GDP کی شرح 2.5 فیصد ہے، حکومت اس با رے میں بھی سوچے، کہا جا رہا ہے کہ trade deficit کم ہو گیا ہے یہ کاروبار نہ ہو نے اور امپورٹ میں کمی اور کاروبار ی سرگرمیاں نہ ہو نے اورGDP کی شرح بڑھنے سے trade deficit میں کمی آئی ہے ۔
تازہ ترین