• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم کبھی فضائی آلودگی کی بات کرتے ہیں تو کبھی آبی اور زمینی آلودگی کی لیکن آلودگی کی ایک اور بھی قسم ہے جو دوسری اقسام کے مقابلے میں کافی حد تک نظر انداز ہوتی ہے اور جس کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، وہ ہے صوتی یا شور کی آلودگی۔ بدقسمتی سے پاکستان کے بڑے شہر فضائی آلودگی کا شکار ہونے کے بعد اب صوتی آلودگی کا شکار بھی ہو چکے ہیںجس کی وجہ سے شہری مختلف امراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ امریکہ کے قومی ادارۂ صحت کے مطابق 75ڈی بی سے کم آواز ایک عام انسان کی سماعت کو متاثر یا ختم نہیں کر سکتی لیکن اگر آواز 85ڈی بی یا اس سے زائد ہو تو اس کے خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مقررہ پیمانوں کے مطابق شہری علاقوں میں یہ سطح دن کے وقت 55اور رات کو 45جبکہ کمرشل علاقوں میں بالترتیب 65اور 55ڈیسی بل سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے لیکن ہمارے ہاں بےہنگم ٹریفک، پریشر ہارنز، جنریٹرز، لائوڈ اسپیکر کے بےجا استعمال اور انڈسٹری کے باعث شہری علاقوں میں شور کی سطح 90ڈیسی بل سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ محکمہ ماحولیات کے ڈائریکٹر نسیم الرحمن کے مطابق پریشر ہارنز اور زیادہ شور کرنے والی گاڑیوں کے خلاف کارروائی مستقل بنیادوں پر جاری رہتی ہے لیکن ہمارے عوام میں اِس حوالے سے شعور یا آگہی نہ ہونے کی وجہ سے شور کی آلودگی کم نہیں ہو رہی۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ فضائی آلودگی سے پیدا ہونے والی اسموگ اور اُس سے ہونے والے نقصانات کے ساتھ ساتھ حکومت صوتی آلودگی پر قابو پانے کیلئے بھی جنگی بنیادوں پر اقدامات کرے۔ عوام کو بھی ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے سگنل پر کھڑے گاڑیوں کے ہارن بجانے، خوشی منانے کیلئے گاڑیوں کے سائلنسر نکال کر سڑکوں پہ نکلنے، آتش بازی، ہوائی فائرنگ، ڈھول ڈھماکے سے احتراز کرنا چاہئے تاکہ شور کی آلودگی کم ہو سکے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین