• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عین اس وقت، کہ کرہ ارض کے بیشتر ممالک کے صاحبانِ فکر انسانی حقوق کا عالمی دن مناتے ہوئےان مزید اقدامات پر غور کر رہے تھے جو بنی نوع آدم کے احترام اور انسانیت کی اعلیٰ قدروں کی سربلندی کے لئے حکومتی، معاشرتی اور عالمی سطح پر بروئے کار لانے کی ضرورت ہے،بھارت کی نریندر مودی سرکار نے مسلمانوں کیخلاف نفرت پر مبنی قانون پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (لوک سبھا) سے منظور کراکر ایسا پیغام دیا ہے جسکے منفی اثرات کی روک تھام کیلئے اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری کا حرکت میں آنا ضروری ہے۔ مسلمانوں کے سوا 6مذاہب سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت دینے کے مذکورہ قانون کابظاہر مقصد بھارت میں بڑی تعدادمیں موجود ایسے لوگوں کے حقوقِ شہریت کے دعوئوں پر جلد فیصلے کی راہ ہموار کرناہے جنہیں اس قانون میں تارکین وطن کہا گیا ہے۔ اس ضمن میں ان خبروں کا حوالہ دینا غیرضروری نہ ہوگا جن کے تحت ریاست آسام میں پشتہا پشت سے آباد لاکھوں مسلمانوں کو بھارتی شہریت سے خارج کرکے ’’بے وطن‘‘ بنا دیا گیا ہے۔ بھارتی لوک سبھا میں متعصبانہ قانون کی منظوری کے ردعمل میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور کی گئی قرارداد، وزیراعظم عمران خان کا ٹویٹر بیان اور دفتر خارجہ کا ردعمل اگرچہ دنیا کی توجہ انسانی حقوق کے عالمی منشور، پاکستان کے ساتھ کئے گئے دوطرفہ معاہدوں اور راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ کے توسیع پسندانہ عزائم کی طرف مبذول کرانے کا ذریعہ ہے مگر خطے کو منافرت کی نئی آگ سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ متحرک وفعال سفارت کاری کے ذریعے دنیا بھر کے دارالحکومتوں کو صورتحال کی اس نازک کیفیت سے پوری طرح باخبر کیا جائے جو ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں طویل لاک ڈائون، انسانی حقوق کی سنگین پامالی اور ان گنت نئے قبرستان جنم لینے سے پیدا ہوئی ہے تو دوسری جانب بھارت کے مختلف حصوں میں صدیوں سے رہنے بسنے والے مسلمانوں کی شہریت کی تعصب کی بنیاد پر منسوخی کے خدشات کو جنم دے رہی ہے۔ انسانی حقوق کا عالمی منشور ہر طرح کے امتیازات اور مذہب و عقائد کی بنیاد پر تعصبات کی نفی کرتا ہے جبکہ پاکستان اور بھارت کی حکومتیں لیاقت نہرو معاہدے سمیت کئی سمجھوتوں کے تحت اپنے اپنے علاقوں میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کی پابند ہیں۔ بھارتی شہریت کے ترمیمی قانون کے پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے سے قبل ہی کانگریس سمیت اپوزیشن کی طرف سے اسے بھارتی آئین کی اس روح کے منافی قرار دیا جارہا تھا جس کے تحت بھارتی حکومتیں ہزاروں مسلم کش فسادات کے باوجود دنیا کو نئی دہلی کا سیکولر چہرہ دکھا کر مذہبی امتیازات سے بالاتر ہونے کا تاثر دیتی رہی ہیں۔ چنانچہ ایک طرف عوامی سطح پر اس بل کی مخالفت سات ریاستوں میں ہڑتالوں اور متعدد شہروں میں مظاہروں کی صورت میں نمایاں ہوئی۔ دوسری جانب پارلیمان سے خطاب میں کانگریسی رہنما راہول گاندھی نے منظور کردہ بل کو بھارتی آئین پر حملہ قرار دیا جبکہ بی جے پی کی اتحادی جماعت اکالی دل کے علاوہ مجلس اتحاد المسلمین نے جس ردعمل کا اظہار کیا اس سے دو قومی نظریے کی اصابت کے اعتراف کا پہلو نمایاں ہے۔ امریکہ کے کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی نے تو کھل کر یہاں تک کہہ دیا ہے کہ بھارتی حکومت انڈین شہریت کیلئے ایسا مذہبی خاکہ تشکیل دے رہی ہے جسکے ذریعے لاکھوں مسلمانوں کو شہریت سے محروم کر دیا جائیگا۔ مودی سرکار کے اقدامات دو درجن سے زیادہ متشدد علیحدگی پسند تحریکوں سے دوچار بھارت کو کس مقام پر لیجا سکتے ہیں؟ یہ ایسا سوال ہے جس پر عالمی برادری کو پورے خطے کے امن و استحکام اور عالمی امن کے حوالے سے بطور خاص فوری طور پر توجہ دینی چاہئے۔

تازہ ترین