• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنگل کی بادشاہت پر ایک افراتفری مچی تھی۔ ہر کوئی طاقت کے زعم میں مبتلا، جنگل کے بادشاہ کو اپنی طاقت کا مان، ایک سنگین تنازع کھڑا تھا، فیصلے پر اتفاق ناممکن، جنگل کے سب طاقت ور، کمزور پریشان جنگل کے بادشاہ کے سامنے پنچایت لگی مگر تنازع کسی کروٹ نہ بیٹھ سکا۔

صورتحال اس حد تک سنگین ہوئی کہ شیر کی طاقت کو بھی چیلنج کر دیا گیا۔

مجبوراً جنگل کی پنچایت نے اس بات پر اتفاق کیا کہ عبوری طور پر جنگل کی بادشاہت کسی دوسرے کو سونپ دی جائے اور وہ جو فیصلہ صادر کرے سب اسے قبول کریں۔

باہمی گفت و شنید کے بعد قرعہ فال ایک ایسے خوش نصیب کے نام نکلا جو اپنی جبلت کے حساب سے انسانی فطرت کے قریب تر شرارتی اور باتونی تصور کیا جاتا ہے۔

تمام تر فیصلے کے اختیارات مذکورہ صاحب بہادر کو سونپ دیئے گئے۔ صاحب بہادر کو جنگل کی چوہدراہٹ و اختیار کیا ملا اپنی بھی چال بھول گیا، کمر پر ہاتھ رکھے اکڑ اکڑ کر یہ چلے وہ چلے، ایک درخت سے دوسرے درخت چھلانگیں لگانے لگے۔

جنگل کی رعایا مطمئن تھی کہ صاحب بہادر بہت غوروخوض فرما رہے ہیں اور فکر مند ہیں کہ مسئلے کا کوئی مثبت حل ملے۔

ایک دن گزرے تو دوسرا دن آئے۔ صورت حال جوں کی توں نظر آئے مگر صاحب بہادر کی فکر مندی ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگاتے، عجیب و غریب آوازیں نکالتے وقت گزرا جائے۔

جنگل پر ایک بحرانی کیفیت طاری تھی، ہر کوئی فیصلے کا منتظر تھا۔ ایک دن سب نے آواز لگائی صاحب بہادر ذرا نیچے تو تشریف لائیے، ہم سے گفت و شنید فرمائیے، کچھ اپنے دل کا حال تو بتائیے۔

آخر آپ ایک شاخ سے دوسری شاخ پر ٹپوسیاں کیوں لگا رہے ہیں تو صاحب بہادر نے ایک بار پھر کمر پر دونوں ہاتھ رکھے اور اکڑوں کھڑے فرمانے لگے، بھائیو آپ کی فکر مندی میں دن گزر رہے ہیں، یہ اچھل کود اسی کا نتیجہ ہے کہ کوئی فیصلہ برآمد ہو مگر میں بھی مجبور اور بےبس ہوں، تو صاحب کیا سمجھ آئی جب سے عمرانی سرکار نے اقتدار کے چکنے ایوانوں میں پائوں پائوں چلنا شروع کیا ہے یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اب گرے کہ کب گرے۔

کپتان خان اگرچہ بوڑھوں میں نوجوان ہیں مگر حامی ہوں یا حواری انہیں ابھی پالنے میں پڑا بچہ ہی سمجھتے ہیں اور ہر وقت یہی خطرہ لگا رہتا ہے کہ ہاتھوں میں پکڑا اقتدار نما شیشے کا نازک کھلونا اب ہاتھ سے گرا یا زمین پر پٹخا لیکن آخر کب تک ایسا چلے گا؟ اب تو حالت یہ ہو رہی ہے کہ جن پر تکیہ کیا تھا وہ پتے بھی ہوا دینے لگے ہیں۔ کبھی سندھی، کراچی اتحادی بنی گالا تشریف لاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کئے وعدے کب وفا ہوں گے؟

کب مرادوں بھری بارات ہمارے آنگن اترے گی؟ کب ہماری خالی جھولی میں سکے ڈالے جائیں گے؟ تو اگلے دن مینگل صاحب باغیانہ بیان داغ دیتے ہیں اور چھ نکات کی بنیاد پر حکومتی اتحاد سے علیحدگی کی دھمکی دے دیتے ہیں۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی (ق) لیگ والے بھی کسی سے کم نہیں۔ وہ بھی عمرانی سرکار سے بہت سارے تحفظات رکھتے ہیں۔ آخر اقتدار کی رسہ کشی کا یہ کھیل تماشا کب تک چلے گا؟ بیساکھیوں کے ساتھ یہ حکومت کتنا لمبا سفر طے کر پائے گی؟

سر پر بھاری قانون سازی آن پڑی ہے، سپہ سالار پاکستان کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ ہے، الیکشن کمیشن کی تکمیل کے مراحل ہیں اور اس سے بڑھ کر اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومتی اتحادیوں کی مرحلہ بہ مرحلہ کچھ لو اور کچھ دو کی بازی بھی چل رہی ہے۔

سوال صاحبِ اقتدار اور باہر بیٹھے تمام سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے یہ بھی ہے کہ ان کی سوچ کی کوئی سمت بھی ہے یا ساری کی ساری سیاست کا کاروبار کچھ لو اور دو کی بنیاد پر ہی جاری رہے گا۔ کوئی نظریہ، کوئی سیاسی پختگی، کوئی سنجیدگی آخر کب تک احتساب کے نام پر سودے بازی جاری رہے گی اور عوام کو بےوقوف بناتے رہیں گے؟

یہ کیسا انصاف اور احتساب ہے جو اقتدار بچانے کی خاطر ہمیشہ مصلحتوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ معاملہ کسی شریف فیملی یا زرداری خاندان کا نہیں پوری قوم کا المیہ ہے کہ اگر حقیقی معنوں میں کسی نے جرم کیا ہے تو وہ سزا بھگتے۔ اگر کسی نے احتساب کو انتقام بنایا ہے تو وہ بھگتے۔ یہ کیسا نظام ہے جو صرف مفادات اور سودے بازی کے گرد گھومتا ہے۔

آج ایک مرتبہ پھر سیاسی بلیک میلنگ کا دور دورہ ہے۔ کوئی ان ہائوس تبدیلی کا دعوے دار ہے تو کوئی استعفوں پر سودے بازی کی دھمکی دے رہا ہے۔ کچھ پیسوں کا لین دین کرکے جان بچائے باہر بیٹھے ہیں۔

آخر یہ کیا ہے؟ چائے کی پیالی میں یہ طوفان کبھی اٹھتا، کبھی تھمتا ہے اور عوام کو صرف پھونکوں سے چائے ٹھنڈی کرنے پر لگا رکھا ہے۔ سیاستدان سیاسی پختگی کا ثبوت دیں۔

اگر سیاست کرنی ہے تو پھر بھٹو کی سیاست کریں، اپوزیشن میں رہنا ہے تو نوابزادہ نصراللہ کی بیٹھک کو یاد رکھیں۔

جان بچانے کی آڑ میں باہر جانے والے اور سودے باز سیاست دان یاد رکھیں یہ روز روز کا آنا جانا، سودے بازی اب نہیں چلے گی۔

مصلحتوں کے شکار حکمران اور سیاستدان ہمارا مستقبل نہیں ہو سکتے۔ کوئی تو ہو جو پاکستان کی ڈوبتی سیاسی کشتی کو پار لگائے۔

تازہ ترین