• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گل و خار… سیمسن جاوید
انگلینڈ والے کہتے ہیں ذات میں کیا رکھا ہے، انسان میں بس انسانیت ہونی چاہئے ۔ مگر ہمارا تجربہ اس سے ذرا مختلف ہے۔ کیونکہ آج تک ہمار اواسطہ جس بھی بھٹی سے پڑا ہے اسے شہنشاہ جذبات ہی پایا ہے۔پھر وہ چاہے شہاز بھٹی ہو،ارشاد بھٹی ،سرور بھٹی ہو یا ہمارے متحرم دوست جاوید بھٹی ہوں۔ جوان دنوں لوگوں کو خدا کی طرف راغب کرنے اوران کی عاقبت سنوارے کی فکر میں سوشل میڈیا پر متحرک نظر آرہے ہیں۔چند دن پہلے انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ ڈالی کہ’’ 35 سال پہلے پپو قتل کیس میں ضیاء الحق نے مجرم کو مینار پاکستان چوک میں سرعام پھانسی پر لٹکایا تھا۔ تاریخ گواہ ہے اگلے پندرہ سال جنسی تشددکا کوئی کیس سامنے نہیں آیا تھا‘‘۔یہی جمہوریت اور آمریت میں فرق ہے۔عوامی حکومت میں سزا تو دور کی بات ہے، مجرم پکڑے تک نہیں جاتے ۔چند ایک جو پکڑے گئے اور انہیں سزا بھی ہوئی مگر معصوم بچوں کے ساتھ بدفعلی کے بعد قتل کے اندہناک واقعات میں کمی واقع نہیں ہوئی۔اس کی کچھ وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی مصروفیات یا ترجیحات ہی الگ ہیں۔ انہیں اپوزیشن کو کرپشن کے نام پر روندنے اور بڑی بڑی پریس کانفرنسوں سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ اکانومی بہتر ہو رہی ہے کا راگ الاپنے کے علاوہ انہیں کوئی کام نہیں ۔متعلق العنان آمروں کی طرح ہٹ دھرمیاں ہیں کہ جوان کے دماغ میں آتا ہے کر گزرتے ہیں۔ چاہے بعد میں انہیں سبکی ہی کیوں نہ ہو۔چند ہفتوں پہلے جس کو وہ اپنی کامیابی سمجھتے رہے سپریم کورٹ نے اور وکلاء نے انہیں سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے کا عندیہ دے دیا۔ڈیڑھ سال گزرنے کو ہے مگر اب تک تو رسہ کشی کے علاوہ کوئی قابل ذکرقانون سازی نہیں ہوئی۔ الیکشن کمیشن کے چیئرمین اور دو سرے ارکان کی تقرری پر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان اتفاق نہیں ہوسکا۔ حکومت شایدیہ بھول گئی ہے کہ اس کا کام قانون سازی بھی کرنا ہوتا ہےجو اپوزیشن کے بغیر ناممکن ہے۔حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بہتر تعلقات نہ ہونے کی وجہ سے معاملات عدالت میں جانے شرو ع ہو گئے ہیں جس پر سپریم کورٹ بھی خوش نہیں۔آخر کب تک آرڈیننس سے کام چلتا رہے گا۔دراصل حکومت اپنے سوا سب کو ہی کرپٹ سمجھتی ہے۔ خیر بات ہو رہی تھی اس پوسٹ کی جو ہمارے دوست جاوید بھٹی نے سوشل میڈیا پر ڈالی تھی، جس نے1977 کی یاد تازہ کردی ۔ ان دنوں پورے پاکستان میں فتنہ و فساد پھیل چکا تھا۔ لاء اینڈ آرڈر کی بدترین صورت حال تھی۔اقتدار کی ر سہ کشی کی کشمکش کی وجہ سے حکمران رعایا کی طرف سے غافل ہو چکے تھے۔مہنگائی ،کرپشن، چورچکاری ،ڈاکہ زنی اور بدفعلی کے واقعات روز کا معمول بن چکے تھے۔کسی کی عزت محفوظ نہ تھی ،غریب اور شرفا کا جینا مشکل ہو گیا تھا۔اس سے پہلے کہ صورت حال مزید ا بتر ہوجاتی فوج نے ملک کی باگ دوڑسنبھال لی
۔لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ ضیاء الحق جو اس وقت چیف آف آرمی سٹاف تھے۔وہ مارشل لاء ایڈمنیسٹریٹر بن گئے اورانہوں نے ملک میں نظامِ مصطفی نافذکرنے کااعلان کر دیا،سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگا دی ۔ٹی وی چینلز پر خواتین کو سر پر ڈوپٹہ لینا لازم قراردے دیا۔ پرائیویٹ کیبل پربھارتی فلمز دکھانے پر پابندی لگا دی گئی ۔نصابی سلیبس میں تبدیلیاں کر دیں۔مہنگائی پر کنٹرول کرنے لئے خصوصی ٹیمیں تشکیل دے دیں تاکہ لوگوں کوسستی چیزیں ملیں۔ڈاکہ اور زنا کاری کی سخت سزائیں مقررہ کر دی گئیں ۔ ایسی تبدیلیاں لانے سے روز مرہ کی زندگی معمول پر آنا شروع ہوگئی۔لوگوں نے ضیاء الحق کو مرد ِحق او رمردِ مومن کا خطاب دے دیا۔ آج ہر دوسرے روزکمسن معصوم بچوں کو اغوا کر کے اور جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعدانہیں قتل کر دیا جاتا ہے اور مجرم پکڑے نہیں جاتے۔ضیا ء الحق کے دورِ حکومت میں ایک واقعہ ہوا کہ پپو نامی ایک بچے کو بدفعلی کرنے کے بعد قتل کردیا گیا۔جلد ہی پپو کے مجرموں کو گرفتار کرکے سرعام پھانسی دی گئی اور ان کی لاشیں شام تک رسوں سے لٹکتی رہیں۔اس واقعے کے پندرہ سا ل بعد تک کوئی ایسا واقعہ پیش نہ آیا۔ آج عوامی حکومت کے دور میں پورے ملک خصوصاً کراچی میں بچوں کے مسلسل اغوا،جنسی تشدد اور قتل پر جمہوری طاقتوں کی بے حسی نے قوم کو عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کردیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مسلسل ناکامیاں ،کہیں کیس میں دلچسپی لینے کے لئے رشوت کا مطالبہ اور مجرموں کی پشت پناہی نے پورے نظام کو دیمک زدہ کردیا ہے ۔عوام کے دلوں میں خوف پیدا ہو چکا ہے ۔لوگوں نے ڈر کے مارے اپنے بچوں کو گھر وں سے باہر نکالنا چھوڑ دیا ہے۔اگر کسی وجہ سے ان کو بچوں کو گھر پہنچنے میں دیر ہو جائے تو ان کی جان پر بن آتی ہے۔ غریب اور شرفا ء کی عزتیں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔اقلیتوں کی کوئی سننے والا نہیں۔یہ خواہش اب حسرت بن کر رہ گئی ہے کہ ملک وحشی درندوں سے پاک صاف ہو۔ لوگوں کی عزتیں محفوظ ہوں۔ مائیں اپنے لختِ جگر کو باہر بھیجنے سے خوفزذدہ نہ ہوں کہ کہیں کوئی درندہ ہوس پرست ان کے بچے کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر قتل نہ کردے ۔ کئی لوگ جنرل ضیا الحق کے دور کوآمریت کا بدترین دور کہتے ہیں کہ انہوں نے جمہوریت پر شبِ خون مارا تھا۔ مگر کم از کم مہنگائی اور جرم سے ملک کو پاک تو کیا تھا۔خاص بات یہ کہ کسی بھی آمر پر کرپشن کا الزام تو نہیں لگاآج پورا ملک بھیڑیوں کی آ ماجگاہ بن چکا ہے۔اس وقت عام لوگوں اور کمسن بچے، بچیوں کی عزتیں تو محفوظ تھیں ۔ذخیرہ اندوزوں کی مصنوعی شارٹ ایج کی وجہ سے چیزیں کی قیمتیں ہوشربا تو نہ تھیں ۔ غریبوں کی زندگیاں اجیرن تو نہ تھیں ۔آج انصاف اور کرپشن کے خاتمے کی رٹ سن سن کر کان پک گئے ہیں۔اسمبلیوں میں ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے کے تماشے کو دیکھ دیکھ کر ذہن ماؤف ہوجاتا ہے۔پی ٹی آئی تو کچھ خاص کو تو ایسا لگتا ہے جیسے خاص تربیت دے رکھی ہے۔غریبوں کو جینے کیلئے ملازمتیں ،دو وقت کی روٹی ،انصاف اور تحفظ چاہئے۔کل جو کرپشن میں ملوث تھے آج انہیں وزیر اور عوام کو تحفظ دینے والی ایجنسیوں کا ہیڈ بنا دیا گیا ہے۔دوسری سیاسی پارٹیوں کے بگھوڑوں کو وزارتوں سے نوازا گیا ہے۔ کیاانصاف اور قانون سب کے لئے یکساں نہیںہونا چاہئے۔ذرا سوچئے !!!
تازہ ترین