• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور روس کے درمیان اسلام آباد میں منعقد ہونے والے معاشی، سائنسی اور تکنیکی تعاون سے متعلق اجلاس کے موقع پر مہمان وفد نے پاکستان اسٹیل ملز کی بحالی میں تعاون کی جو پیشکش کی ہے اس حوالے سے ہمارے لئے نہایت اہم، پُرکشش اور خوش آئند ہو سکتی ہے کہ اس کی تعمیر میں سوویت یونین کا مالی، تکنیکی اور سائنسی تعاون کار فرما تھا اور منصوبے کی تکمیل پر مل کے اسٹاف کو سوویت یونین ہی میں ٹریننگ دی گئی تھی جس کی تعمیر کا کام 1973ء میں شروع ہوا اور 1985ء میں تکمیل کے بعد اس نے 1.1ملین ٹن اسٹیل کی پیداوار دینا شروع کر دی تھی لیکن سیاسی مداخلت سے یہ زیادہ دیر اپنے پیروں پر کھڑی نہ رہ سکی اور 2006ء میں شوکت عزیز کی حکومت نے اس کی پرائیویٹائزیشن کا فیصلہ کیا جس کی ملک بھر میں مخالفت ہوئی اور سپریم کورٹ نے یہ نجکاری روک دی لیکن اس دوران مل مسلسل خسارے کی طرف بڑھنے لگی۔ 2011ء میں اسے وفاقی حکومت کی پرائیویٹ کمپنیوں کی لسٹ سے نکال کر براہ راست سرکاری ملکیت میں لے لیا گیا اور 2012ء میں یوکرائن نے اس کی بحالی کی پیشکش کی لیکن مسلسل عدم توجہی سے حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ پیداوار نہ ہونے سے حکومت اسٹیل مصنوعات کی درآمد پر اب تک اربوں ڈالر کا زر مبادلہ خرچ کر چکی ہے حالانکہ اس وقت ملک کو اس جیسی ایک نہیں کئی ملوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان اسٹیل قومی اثاثہ ہے جو 2008ء تک معیشت کو اربوں روپے کا منافع دیتی رہی، آج اسے فی گھنٹہ 30 لاکھ روپے سے زیادہ کا نقصان ہو رہا ہے اور ملازمین کو کئی کئی ماہ بعد سرکاری خزانے سے تنخواہیں ادا کرنا پڑتی ہیں۔ حالات کا تقاضا ہے کہ 1777ایکڑ قیمتی اراضی پر قائم اس ادارے کو منافع بخش خطوط پر استوار کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین