• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بعض سچائیاں تاریخ کی امانت ہوتی ہیں اور وقت اُن کی حقانیت پہ مہرِ تصدیق ثبت کرتا ہے۔ ایک عام لیڈر اور بڑے لیڈر میں کیا فرق ہوتا ہے؟ عام لیڈروں کی بصیرت وقتی اور ناپائیدار ہوتی ہے جبکہ بڑے لیڈروں کا وژن دہائیوں اور صدیوں پر محیط ہوتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طاقتور سچائی بن کر ابھرتا ہے۔ 

میں اپنی تاریخ کا معمولی سا طالبعلم ہوں پھر بھی کبھی کبھی یہ سوچ کر حیرت میں ڈوب جاتا ہوں کہ مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی جیسی شخصیات ہندو غلبہ کے مضمرات کیوں نہ سمجھ سکیں؟ کانگرس کے اِس قدر قریب رہ کر بھی وہ ہندو ذہنیت، کانگرسی عزائم اور اُن کا مطمح نظر کیوں نہ سمجھ سکیں؟ گاندھی بظاہر کیا تھا اور اندر سے کیا تھا، ان پر یہ راز کیوں نہ کھل سکا؟ 

قائداعظم 1920ء تک کانگرس کے رکن رہے، وہ ہندو مسلم اتحاد کے مخلص داعی تھے اور لکھنؤ پیکٹ کے معمار، جس کے تحت جداگانہ نیابت (Separate Electorate) کا اصول طے ہوا اور مسلمان قومیت کی علیحدہ پہچان کی بنیاد رکھی گئی لیکن جب انہوں نے کانگرسی قیادت کے باطن میں جھانکا اور ہندو عزائم کو بھانپا تو وہ نہرو رپورٹ (1928)کے بعد یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ آج سے ہمارے اور کانگرس کے راستے جدا جدا ہیں۔ 

جب ایک بار انہوں نے ہندوئوں کے عزائم کو خوب سمجھ لیا تو پھر عمر بھر واپس مڑ کر نہیں دیکھا۔ چنانچہ 1930ء میں انگلستان روانگی اور 1934میں ہندوستان واپسی کے بعد وہ بار بار مسلمانوں کو جھنجھوڑتے اور انتباہ کرتے رہے کہ کانگرس خالصتاً ہندوئوں کی جماعت ہے، وہ مسلمانوں کے حقوق کی نگرانی نہیں کر سکتی، ہندو قیادت باطنی طور پر تنگ نظر، متعصب اور مسلمانوں سے نفرت کرتی ہے، ہندو مسلمانوں سے ہزار سالہ غلامی کا انتقام لینا چاہتے ہیں، ذات پات کے اسیر ہندو مسلمانوں کو شودر سے بھی کم درجہ دیتے ہیں، ان کے ظاہری اور سیاسی بیانات سے دھوکہ مت کھائو۔ 

اکتوبر 1937ء میں قائداعظم نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے اسی صورتحال کی طرف اشارہ کیا کہ ’’کانگرس نے مطالبہ کیا مسلم لیگ غیر مشروط طور پر اس کی اطاعت قبول کرے۔ 

اس عہد نامے پر دستخط کرنے کا مطلب ہے مسلمانوں کی جداگانہ ہستی کو ختم کیا جائے۔ یہ تسلیم کیا جائے کہ برِعظیم میں جو کچھ بھی ہے، وہ کانگرس ہے اور کانگرس نام ہے ہندو اکثریت کا۔ اس اکثریت کے رہنما ہیں گاندھی اور اُن کے اوپر ہے برطانیہ۔ 

مولانا حسرت موہانی نے تلخ سچ سے پردہ ہٹاتے ہوئے کہا ’’گاندھی جی جس حکمرانی کا خواب دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اوپر انگریز بیٹھا ہو اور نیچے ہندو۔ یہ چکی کے دو پاٹ ہوں گے جس کے درمیان مسلمان پستے رہیں گے‘‘۔ حسن ریاض نے اپنی کتاب ’’پاکستان ناگزیر تھا‘‘ میں اس مضمون کا ذکر کیا ہے جسے گاندھی نے اپنے رسالے ینگ انڈیا میں چھاپا اور جس میں لکھا گیا کہ ہندوستان میں مسلمانوں سے نپٹنے کے تین طریقے ہیں۔ 

اول، چونکہ وہ ہندوئوں سے مسلمان ہوئے ہیں، اس لئے انہیں زبردستی ہندو دھرم میں واپس لایا جائے۔ دوم، اگر وہ مذہب کی تبدیلی پر آمادہ نہ ہوں تو انہیں ہندوستان چھوڑنے کیلئے کہا جائے۔ اگر یہ طریقہ بھی کارگر نہ ہو تو انہیں اٹھا کر بحیرہ ہند میں پھینک دیا جائے‘‘۔ 

حیرت ہے کہ اس نفرت کے اظہار کے باوجود کانگرسی مسلمان ہندوئوں کے عزائم نہ سمجھ سکے اور قائداعظم و مسلم لیگ کی مخالفت کرتے رہے۔ مزید حیرت اس بات پہ ہوتی ہے کہ کچھ حضرات وقتاً فوقتاً مولانا ابوالکلام آزاد کی پاکستان کے حوالے سے پیشگوئی کو اچھالتے رہتے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان 25برس بعد ٹوٹ جائے گا اور مشرقی پاکستان الگ ہو جائے گا۔ 

میں نے ابوالکلام کی کتاب ’’انڈیا ونز فریڈم‘‘ پڑھی ہے اور وہ صفحات بھی پڑھے ہیں جو اُن کی وصیت کے مطابق ان کی وفات کے بعد شائع ہوئے لیکن مجھے کہیں بھی ایسی پیشگوئی نظر نہیں آئی۔ طالبعلمانہ سوال یہ ہے کہ مولانا پاکستان کے مستقبل بارے تو پیشگوئی کر گئے لیکن انہیں ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل کیوں نظر نہ آیا؟ 

اُن کی بصیرت نے دسمبر 2019میں پاس ہونے والے قانون کو کیوں نہ بھانپا جسے ہندوستان کی لوک سبھا نے بہت بڑی اکثریت سے پاس کیا ہے اور جس کے تحت مسلمانوں کو شہریت سے محروم کر دیا گیا ہے۔ امریکی مذہبی کمیشن کے مطابق اس بل نے ہندوستان میں کروڑوں مسلمانوں کو شہریت سے محروم کر دیا ہے جو ابھی رجسٹریشن برائے شہریت کے مراحل سے گزر رہے تھے۔ 

ذرا آر ایس ایس اور بی جے پی لیڈروں کی تقریریں سن لیں تو ان کے مسلمانوں کے بارے خیالات سن کر آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ دوسری طرف مودی حکومت نے جس طرح مسلمانانِ کشمیر پر شب خون مارا ہے اس کے خلاف اگست سے احتجاج جاری ہے۔ 

پے درپے ان اقدامات نے بھارتی سیکولر ازم کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ یقین رکھو اگر خدانخواستہ ہندوستان تقسیم نہ ہوتا تو مودی جیسی بھارتی حکومتوں نے اکثریت کی طاقت کے نشے میں ملک بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں سے ایسا ہی سلوک کرنا تھا جیسا کشمیر کے اکثریتی مسلمانوں سے ہو رہا ہے۔ 

یہ حقیقت پاکستان کے اُن سیکولر حضرات کے لئے بھی لمحۂ فکریہ ہے جو وقتاً فوقتاً قیامِ پاکستان کے حوالے سے نوجوان نسلوں کو گمراہ کرتے رہتے ہیں اور ان سیاسی لیڈروں کیلئے بھی لمحۂ فکریہ ہے جنہیں پاکستان کی مخالفت ورثے میں ملی ہے۔

کچھ سچائیاں تاریخ کی امانت ہوتی ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کا اجالا پھیلتا چلا جاتا ہے۔ وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ قائداعظم کا وژن مسلمانوں کے مستقبل کا سچا امین تھا اور کانگریسی سیکولر ازم محض فریب تھا۔ 

مجھے یقین ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ بھارتی قیادت کا خبثِ باطن اور عزائم آشکار ہوتے چلے جائیں گے اور عالمی تاریخ قائداعظم کو برصغیر کا سب سے بڑا لیڈر، عظیم ترین قائد قرار دے گی۔

اب آپ کو یہ بات سمجھ میں آ جانی چاہئے کہ قائداعظم حصولِ پاکستان کو کیوں زندگی و موت کا مسئلہ قرار دیتے تھے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین