میرپورخاص پولیس نے سستی موٹر سائیکلیں دینے کی آڑ میں شہریوں سے کروڑوں روپے لوٹنے والے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرکے ایک ملزم ارشد خان زئی کو گرفتار کرلیا جب کہ مقدمہ میں نامزد اس کے ساتھی کی تلاش شروع کردی ہے۔ نمائندہ جنگ کو موصول ہونے والی تفصیلات کے مطا بق ،پچاس ہزار روپے میں ایک معروف کمپنی کی موٹرسائیکل کی بکنگ تین مہینے کی ڈیلیوری پر کی جاتی تھی۔
پولیس کے مطابق چار افراد نے ارشد مجید خان زئی اور اس کے ساتھی فیصل کے خلاف ایک کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کے چیک باؤنس ہونے کی درخواست جمع کرائی تھی،جس پر ابتدائی تحقیقات میں پولیس کو معلوم ہوا کہ سستی موٹر سائیکل کے کاروبارمیں کروڑوں روپے کے فراڈ کے واقعات ہوئے ہیں اور اس میں مختلف گروہ ملوث ہیں ۔ فراڈیوں کے ہاتھوں کم آمدنی والے لالچی اور ضرورت مند متعدد افراد متاثر ہوئے ہیں۔پولیس نے محمد ارسلان نامی ایک شخص کی مدعیت میں ارشد مجید خان زئی اور اس کے ساتھی فیصل کے خلاف جعل سازی اور مختلف الزامات کے تحت مقدمہ درج کرکے مزید تحقیقات شروع کردی ہیں۔
جعل سازی کے کاروبار کی کیا حقیقت ہے؟کون کون اس میں ملوث ہے ؟اس کی سچائی پولیس کی تحقیقات اور عدالتی فیصلے کے بعد ہی سامنے آئے گی ،ویسے میرپور خاص سمیت ضلع بھر میں مبینہ طور پر اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والے جعلسازی کے کاروبار سے ہماری ذمہ دار پولیس ناواقف ہو ،ایسا ناممکن نظر آتاہے۔ میرپورخاص سمیت ضلع بھر میں بڑے پیمانے پرغیرقانونی طور رقم اور سامان کی لین دین کے کاروبار کی بازگشت ایک مدت سے سنائی دے رہی ہے اور متعدد ضرورت مند سادہ لوگ اس کا شکار ہوچکے ہیں۔
جعل سازمافیا کی دھونس دھمکیوں سے نجات حاص کرنے کے مختلف وقتوں میں اقدام خودکشی اور گھروں سے غائب ہونے کے واقعات منظر عام پر آچکے ہیں ہے۔دوسری جانب معلوم ہواہے کہ میرپورخاص ضلع میں کھلے عام او رخفیہ طور پربھاری منافع پر رقم کی لین دین کا غیرقانونی کاروبار وسیع پیمانے پرچل رہا ہے،جس میں سودخورمافیابھولے بھالے ،غریب اور متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو جکڑ لیتی ہییہ بھی معلوم ہوا ہے کہ موٹر سائیکل،کار اور دیگر سامان کی قسطوں پرفراہمی کا کاروبار کرنے والے اور سود پر قرضہ دینے والے رقم سے تین چار گنا زیا دہ رقم کو بغیر تاریخ کا چیک بھی لیتے ہیں جس کی بنیاد پر ضرورت مند کو بلیک میل بھی کرتے رہتے ہیں، عوامی حلقوں کے مطابق سود خور مافیا نے چھوٹے بڑے شہروں اورقصبات میں اپنا مضبوط نیٹ ورک قائم کیا ہوا ہے، سود خور اور ان کے کا رندے سرکاری وغیر سرکاری دفاتر،گلی ،محلوں اور بازاروں میں منڈلا تے رہتے ہیں جہاں بے روزگار،علاج ومعالجہ،بچوں کی تعلیم وتربیت، بہن،بیٹی کی شادی بیاہ اورگھریلو اخراجات برداشت نہ کرنے واے قرضہ لے کران کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں،اگر کوئی ضرورت مند ایک لاکھ روپے قرضہ لیتا ہے تو اس سے منافع کے نام پر 10سے 15ہزارروپے تک ماہانہ سود وصول کیا جاتا ہےاور باقاعدگی سے قسط نہ دینے پر اس کی تذلیل کی جاتی ہے جب کہ لیس بھی متاثرین کی کوئی مدد نہیں کر تی ہے اور یوں غریب ان کے جال میں پھنسے رہتے ہیں۔ ں پر موٹر سائیکل لینے والے ایک متاثرہ شخص نے بتایا کہ ایک دن اس کی نظر ایک بورڈ پڑی جس پر لکھا تھا 'نئی موٹر سائیکل آسان اقساط میں حاصل کریں۔ اسے یہ دیکھ کر اپنی آمد ورفت کی مشکلات کا حل دکھائی دیا۔ اس نے سوچا اگر وہ موٹرسائیکل حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اس کی بہت سی مشکلات حل ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ وہ قسطوں پرموٹرسائیکل فروخت کرنے والی کمپنی کے دفتر میں جا پہنچا۔
کمپنی والوں نے اسے بتایا کہ موٹرسائیکل کی قیمت 40 ہزار روپے ہے جو اسے قسطوں میں 60 ہزارروپے میں ملے گی۔ اس کے لیے اسے 20 ہزار روپے یکمشت ادا کرنا ہوں گے جبکہ بقیہ رقم تین ہزارکی ماہانہ اقساط میں دینا ہو گی۔ اگرچہ یہ شرائط پوری کرنا آسان نہیں تھا مگر موٹرسائیکل کے فوائد مدنظررکھتے ہوئے اس نے یہ کڑوا گھونٹ بھرنے کا فیصلہ کر لیا۔ یکمشت ادائیگی کے لیے اس نے 20 ہزارروپے ایک شخص سے مناسب سود قرض لیا اور کمپنی کو ادائیگی کر کے موٹرسائیکل لے لی۔
مگر موٹرسائیکل خریدتے ہی اس کی مشکلات کا نیا دور شروع ہوا جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا ہے،ایک سرکاری ادارے کے ملازم نے بتایا کہ اس کے بھائی نے پرانی موٹر سائیکلیں آسان قسطوں پر فروخت کرنے کا کام شروع کیا تھا ،کچھ عرصہ کے بعد وہ سود خور مافیا کے چنگل میں پھنس گیا، بھاری رقم وصول کرنے کے باوجود سود خور مافیادھونس ، دھمکیوں سے میرے بھائی اور مجھ سے بھاری رقم کے چیک لے کر اب بلیک میل کر رہی کہ سر چھپانے کا واحد مکان ہم ان کے نام کردیں ،سود خور مافیا نے ہمارا جینا دوبھر کردیا ہے ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ سامان اور رقم کا غیر قانونی کاروبار کی روک تھام کرنے اور مجبور پسے ہوئے عوام کو ان کے چنگل سے نجات دلانے کے لیئے ضلعی انتظامیہ اور پولیس اپنا بھر پور کردار ادا کرے او اس کے ساتھ حکومت سندھ اس حوالےسے فوری قانون سازی کرے۔