• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب بچے اسکول جانا شروع کرتے ہیں تو ان کے والدین توقع کرتے ہیں کہ وہ محفوظ اور بہتر ماحول میں تعلیم حاصل کریں اورپڑھنے لکھنے کے عمل سے لطف اندوز ہوں۔ تعلیمی اداروں کو بھی یہ بات یقینی بنانا چاہئے کہ بچوں کو جو ماحول فراہم کیا جارہاہے وہ محفوظ ہو اور ان کے استعمال میں آنے والے کسی بھی سامان کو محفوظ اور صحیح حالت میں ہونا چاہئے تاکہ بچوں کو کسی قسم کے نقصان پہنچنے کا احتمال نہ ہو۔ 

حفاظت صرف بچوں کو نقصان یا زخمی ہونے سے بچانے کے لئے نہیں ہوتی بلکہ بچوں کی صحت، بڑے بچوں کی شرارتوں، نسل پرستی کے واقعات، ہراسانی اور امتیازی سلوک، جسمانی چھیڑ چھاڑ، بچوں کی طبی ضروریات، ابتدائی طبی امداد، نشہ آور اشیا سے بچاؤ اور انٹرنیٹ کے منفی استعمال سے حفاظت بھی لازمی ہے۔ بچوں کی حفاظت کرنا اسکول کے تمام عملے اور ممبران کی ذمہ داری ہے، انھیں نقصان سے بچانے کے لئے اسکولوں کو مندرجہ ذیل کام کرنا چاہئے۔

٭ ایسا ماحول فراہم کریں جہاں بچے خود کو محفوظ محسوس کریں، انھیں بات کرنے کی ترغیب دی جائےاور ان کی باتیں سنی جائے۔

٭اس بات کو یقینی بنائیں کہ بچوں کو یہ معلوم ہو کہ اسکول میں ایسے ذمہ دار افراد بھی موجود ہیں، جن سے وہ کسی بھی قسم کی تشویش کا اظہارکرسکتے ہیں۔

٭ ایسی معلومات فراہم کریں جو بچوں کو اپنی صلاحیتیں بہتر کرنے کے قابل بنائیں اور انہیں باور کرائیں کہ وہ کس طرح خود کو خطرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

٭بچوں کو بتائیں کہ اسکول کے نظم و ضبط کی پابندی میں کیسے ان کی بھلائی ہے۔ اسکول کے عملے کو بچوں کی حفاظت سے متعلق مناسب تربیت ■حاصل کرنی چاہئے اور انھیں کسی بھی نقصان سے بچانے کیلئے ممکنہ خطرات کی نشاندہی کرنی چاہئے۔

اگر اسکول میں ان تمام باتوں کا خیال رکھا جائے گا تو بچے خود کو محفوظ سمجھتے ہوئے تعلیمی دور سے لطف اندوز ہوں گے۔ ایسے ماحول میںان کی حوصلہ افزائی اور خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے، جس سے وہ خوب پھلتے پھولتے ہیں اور جو بچے خود کو اسکول کے ماحول میں محفوظ نہیں سمجھتے، ان کی خوداعتمادی میں کمی آتی ہے اور نشوونما پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔ اگر بچوں کے لیے اسکول میں حفاظتی اقدمات بہتر اندا زمیں کیے جائیں اور ہر فرد اپنی ذمہ داری کو اچھی طرح پہچانے تو اس کے درج ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں :

٭بچے نقصانات اور بدسلوکی سے محفوظ رہتے ہیں۔

٭اسٹاف کو یہ جاننے کا موقع ملتا ہے کہ اگر کوئی بچہ پریشان ہے تو انہیں کیا کرنا ہے۔

٭بچوں میں عزت نفس اور خود اعتمادی پیداہوتی ہے۔

٭ ان کو بچپن سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملتاہے۔

٭تعلیمی ادارے کی ساکھ بہتر ہوتی ہے کہ وہ ذمہ دار ہے اور اسے اپنے کام پر فخر ہے۔

اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی حفاظت کے لئے متعدد پالیسیاں اور طریقہ کار موجود ہیں، جو اس بات کو یقینی بنانے میں مدد کرتے ہیں کہ اسکول کے عملے اور بچوں کو معلوم ہو کہ ان سے کیا توقع کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ مناسب سلوک کریں گے اور ممکنہ طور پر محفوظ ترین حالات سے لطف اندوز ہوں گے۔ واضح پالیسیاں اور طریقہ کار موجود ہونے پر اسکولوں میں حفاظت کو بہتر طور پر یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ واضح ہدایات اور اصولوں کی موجودگی میں ہر کوئی بہتر کام کرتا ہے۔

پالیسیاں اور طریقہ کار ان اصولوں کو طے کرتے ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے اور اگر ان پر عمل نہیں کیا جائے تو اس کے خراب نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ جب اساتذہ قواعد کے نفاذ کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں تو بچے بہتر سلوک اور کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

درج ذیل اقدامات کے ذریعےبھی بہتر سے بہتر تعلیمی ماحول فراہم کیا جاسکتا ہے:

٭گڈ گورننس اور پالیسی کے متعلق فیصلے کرنے میں بچوں کو شامل کرنا۔

٭اسکول کی پالیسیوں اور طریقہ کار کا باقاعدگی سے جائزہ لینا۔ کمپیوٹرکے استعمال، کلاس اور کھیل کے میدان کے اصولوں کی پاسداری کو یقینی بنانے کیلئے بچوں اور والدین کو شامل کرنا۔

٭بچوں کو دھونس، تعصب اور دیگر طرز عمل سے نمٹنے کے لئے فعال اقدامات کرنے کی ترغیب دینا۔

٭پالیسی اور نصاب کو ایک دوسرے سے مربوط رکھنا۔

بچوں کے ساتھ کام کرتے وقت یہ بہت ضروری ہے کہ ناقص عمل سے متعلق کسی بھی خدشے کی اطلاع دی جائے۔ نیز یہ یقینی بنانا اسکول کا کام ہے کہ ان لوگوں سے ، جن کے طرز عمل پرتشویش لاحق ہے، مطلع کرنے والے کو تحفظ فراہم کیا جائے اور اس کا نام سیغہ راز میں رکھا جائے۔

تازہ ترین