وطن عزیز میں بچوں سے متعلق جرائم اخلاقی پستی کی سنگین حد تک پہنچ چکے ہیں اور ان کے جنسی استحصال، قتل اور فحش وڈیو فلمیں بنانے جیسے معاملات ایسی صورت اختیار کر چکے ہیں جنہیں دور کرنے کے لیے پارلیمان سے لیکر عدلیہ تک ریاستی مشینری کو سرجوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں بچوں کے خلاف انسانیت سوز جرائم کا پہلا واقعہ 1999میں شاہدرہ لاہور میں جاوید اقبال نامی مجرم کی گرفتاری کی صورت میں سامنے آیا تھا جس نے 100بچوں کے ساتھ زیادتی اور ان کے قتل کا اعتراف کیا تھا، اگرچہ اسے قانون کے مطابق سزائے موت دی گئی لیکن اس کے باوجود بچوں کا جنسی استحصال کرنے والوں نے عبرت نہ پکڑی بلکہ اسے پہلے سے بھی بڑھ کر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے گھنائونا کاروبار بنا لیا۔ اس حوالے سے اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے بجا کہا ہے کہ بچوں کا جنسی استحصال پورے معاشرے کے لیے باعث ِشرم اور افسوسناک ہے۔ اجلاس میں بچوں کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دینے کے لیے وزیراعظم کی ہدایت پر آئندہ دو ہفتے کے اندر نیشنل ایکشن پلان ترتیب دینے کا فیصلہ کیا گیا جو منطقی طور پر ایک موثر پیش رفت ثابت ہو گی۔ اس سلسلہ میں وزارتِ داخلہ میں نیشنل کرائم ڈیٹا بیس بنانے کا فیصلہ اصلاحات کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ وزیراعظم نے مروجہ قوانین کو مزید موثر بنانے کے لیے جو سفارشات مانگی ہیں بلاشبہ وہ بھی ایسے اقدامات ہیں‘ قوم جن کی ضرورت محسوس کر رہی تھی۔ بچوں کے ساتھ آئے دن زیادتی اور ان کے قتل کے واقعات کے پیش نظر صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ نونہال آج اپنے ہی وطن میں آزادی کے ساتھ گھر سے باہر نہیں نکل سکتے، چلڈرن پارک رفتہ رفتہ ویران ہو رہے ہیں، والدین درندگی سے بچانے کے لیے انہیں خوف دلانے پر مجبور ہیں۔ اگر ہم نے اس وبا کا خاتمہ نہ کیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔