• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خود بھی یاد نہیں، کب سے کہہ رہا ہوں کہ ......’’پاکستان کا اصل مسئلہ تباہ حال اقتصادیات نہیں، برباد شدہ اخلاقیات ہے۔‘‘سینکڑوں بار کبھی بول اور کبھی لکھ کر عرض کیا کہ ......’’انسان سازی پر فوکس کرو کہ یہی اصل کام ہے کیونکہ آدمی اگر انسان بن جائے تو ایک خودکار نظام کے تحت باقی سب کچھ خود بخود بن جاتا ہے‘‘۔ 

لیکن نہیں کیونکہ پالیسی اور فیصلہ سازوں کو اور بہت سے ’’ضروری کاموں‘‘ کا سامنا ہے اور سچی بات یہ کہ شاید انہیں اتنی صاف ، سیدھی، بنیادی اور سادہ ترین بات سمجھ بھی نہیں آتی کیونکہ مکر، فریب، جھوٹ، منافقت، ریا کاری اور سازش سے آلودہ ماحول میں سادہ سی بات سمجھنا واقعی مشکل ہو جاتا ہے۔

’’پی آئی سی‘‘ میں جو کچھ ہوا اس پر جو کہنا تھا ’’رپورٹ کارڈ‘‘ میں کہہ چکا جس میں اضافہ میرے بس کی بات نہیں، یہ کہنا ہی کافی تھا کہ پی آئی سی میں پس آئینہ اور سر آئینہ جو کچھ بھی ہوا اور اس کے بعد جو کچھ ہو رہا ہے ، یہی ہمارا حقیقی اجتماعی چہرہ ہے جس کی ایک جھلک دکھائی دی تو اپنا چہرہ دیکھتے ہی لرز اٹھے اور چیخنے لگے۔

کسی حادثے یا حادثات کے نتیجہ میں چہرہ مسخ ہو جائے تو کاسمیٹک سرجری کا سہارا لیا جاتا ہے جیسے آج سے تیس پینتیس برس پہلے انگلینڈ میں فوکس ہنٹنگ کے دوران گھوڑے سے گر کر میرا اک دوست اس بری طرح زخمی ہوا کہ جسم کی ہڈیاں کم، چہرے کی زیادہ ٹوٹ گئیں تو ظاہر ہے چہرے کی کھال کا بھی حشر نشر ہوگیا۔ 

یہ تب کی بات ہے جب انگلینڈ میں لومڑی کے شکار پر پابندی نہیں تھی اور کاسمیٹک سرجری بھی ایسی نہیں تھی جیسی آج ہے۔مسخ شدہ چہرے کی بحالی پر کام شروع ہوا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ سرجری کتنی طویل اور تکلیف دہ تھی۔ 

طویل اس لئے کہ مختلف وقفوں کے ساتھ عرصۂ دراز تک جاری رہی اور مکمل ہو چکنے کے بعد بھی مدتوں میرے اس دوست کے چہرے پر NUMBNESSکی نحوست چھائی رہی یعنی چہرہ بے حس یا یوں کہہ لیجئے سُن سُن سا رہتا تھا۔

اگر ایک مسخ شدہ چہرے کی بحالی اتنی طویل اورتکلیف دہ ہو سکتی ہے تو کروڑوں پر مشتمل اجتماعی چہرے کی بحالی کے لئے کتنی مہارت، محنت درکار ہوگی؟ کتنے صبر اور برداشت کی ضرورت ہوگی؟ یہ آپ خود سوچ لیں جبکہ ہم اور ہمارے حکمران عجلت پسند اور بے صبرے پن کی آخری انتہائوں پر ہیں ..... ہم ہیں وہ لوگ جو بیج کاشت کرنے سے پہلے ہی اسے گھنے جنگل کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

وکیل کیا ہوتا ہے؟ دلیل، دلیل اور صرف دلیل ۔اور ’’دلیل‘‘ تو اس معاشرے میں کب کی دفن ہو چکی بلکہ اب توشاید اس کی قبر بھی نہ ڈھونڈی جا سکے۔ سیاسی راہنمائوں سے لے کر مذہبی راہنمائوں تک ، فکری راہنمائوں سے لے کر سماجی راہنمائوں تک ’’دلیل‘‘ اتنی بھی نہیں رہ گئی جتنا آٹے میں نمک ہوتا ہے بلکہ اس کے بالکل برعکس، یکسر الٹ، جذبات فروشی، حقائق کو مسخ کرنا، جہالت کا بارٹر، زمینی حقائق کو بے شرمی سے نظر انداز کرنا، آپس میں آپس بارے جھوٹ بولنا، تاریخ کے ساتھ مسلسل ٹمپرنگ، احمقانہ مبالغہ آرائی، بے تکے ، فرضی، من گھرٹ قصوں کہانیوں میں عظمت کی تلاش، بت پرسی کو پھلانگتی ہوئی شخصیت پرستی جیسے کوڑے دانوں اور ابلتے ہوئے گٹروں کی موجودگی میں "PIC"نہ ہوگا تو کیا ہوگا؟

برا نہ منائیں تو عرض کروں کہ ’’اسلامی، جمہوریہ، پاکستان‘‘ میں ہر روز کسی نہ کسی سائز اور قسم کا "PIC" ہوتا ہے جس پر پورے ’’جوش و جذبہ‘‘ ....’’عقیدت و احترام‘‘ کے ساتھ ماتم کے بعد سکون بخش سکوت مرگ طاری ہو جاتا ہے کہ اچانک اک اور "PIC" پیدا ہو جاتا ہے ..... پیشہ ور ماتمیئے اور ناصح پھر شروع، پھر سکوت مرگ، علیٰ ہذا القیاس۔

کہتے ہیں امن جنگوں کے درمیان وقفہ کا نام ہے تو میرا خیال ہے مسخ شدہ معاشروں میں ’’سکون‘‘ ماتموں کے درمیان چھوٹے سے وقفہ کا نام ہے۔ابھی چند روز پہلے چلتی جلتی ٹرین میں بیسیوں لوگ جل مرے، پورے ملک نے رات گئے تک ٹی وی سکرینوں پر یہ سانحہ دیکھا.

اگلے روز اخبارات کوریج سے بھر ےہوئے تھے کہ اگلے روز ہی یہ خبر آگئی کہ درجنوں ’’صالحین‘‘ پھر گیس سلنڈروں اور چولہوں کے ساتھ ٹرین میں گھستے پکڑے گئے۔ تنگ آ کے یہ جملہ میرا تکیہ کلام قرار پایا کہ ’’انسانی حقوق کے لئے انسان ہونا بنیادی اور لازمی شرط ہے جبکہ انسان ہونے کے لئے انسانوں سے مشابہت کافی نہیں‘‘۔ 

بے شک یہ ایسا ہی ہے کہ پڑھا لکھا ہونے کے لئے ڈگری کافی نہیں۔’’مسخ شدہ اجتماعی چہرہ‘‘ کی "PIC" سے ملتی جلتی جھلک دیکھنی ہے تو آج کا اخبار ہی کافی ہے۔ آج یہ کالم لکھتے بلکہ لپیٹتے ہوئے چودہ دسمبر 2019 اور ہفتہ کا دن ہے۔ آج کا "PIC" ملاحظہ فرمائیں۔ 

پہلے خون میں ڈوبی ہوئی دو سرخیاں۔’’جگر کے شربت کی زائد المیعاد تین لاکھ بوتلیں برآمد‘‘’’معروف کمپنی کا ویئر ہائوس اور پرائیویٹ گودام سیل، مقدمات درج، ضبط شدہ مال تلف‘‘’’سیکرٹری ہیلتھ کیئر کیپٹن (ر) محمد عثمان کا کہنا ہے کہ سپیشل آپریشن ٹیم نے فروخت کئے گئے شربت کے ٹرکوں کا پیچھا کرکے جعلسازی کا پتہ لگایا۔ 

ایک سال سے بھی زائد ایکسپائرڈ شربت کو فروخت کرنے کے لئے کمپنی سٹور میں رکھا گیا۔ زائد المیعاد شربت کے 2ٹرک 10لاکھ میں فروخت کئے گئے جبکہ باقی مال بھی فروخت کیا جانا تھا‘‘۔

وکیلوں کی وحشت کے نتیجہ میں صرف 3اموات ہوئیں لیکن اس بات کا کھوج کون لگائے گا کہ زائد المیعاد شربت پی کر جگر کے کتنے مریض موت کے گھاٹ اتر چکے؟مقدمات ان پر بھی درج مقدمات وکیلوں پر بھی درج لیکن نتیجہ؟اجتماعی چہرہ مسخ ہو جائے تو اس کی بحالی کے لئے کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ 

طویل اور تکلیف دہ سرجری کی ضرورت ہے جو کم از کم مجھے تو شروع ہوتی بھی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ مریض اور معالج دونوں ہی ’’مرض‘‘ سے لاعلم ہیں۔وکیل موجوددلیل دفن ہوچکی’’آسماں اس کی لحد پر ’’آنسو‘‘ افشانی کرے‘‘

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین