• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب میں ابھی تبدیلی آنا باقی ہے محسوس کیا جا رہا ہے کہ عثمان بزدار کے ذریعے اس تبدیلی و ترقی کا خواب ادھورا رہے گا کوئی ایک المناک واقعہ اس مشاہدے اور خواہش پر مہر ثبت لگا دیتا ہے پچھلے دنوں پی آئی سی پر وکلاء حملے کے واقعہ نے مایوسی پریشانی فکر مندی میں اضافہ کر دیا ہے ہر کوئی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ ملک، قوم اور معاشرہ بجائے ترقی کے تنزلی کی جانب جا رہا ہے۔ پنجاب حکومت کی کارکردگی پر ایک بار پھر بے شمار سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ کیا اس معاملے اور تنازعے کو ’’نئے پاکستان‘‘ میں اسی طرح سے حل کیا جانا چاہئے تھا؟ 

ہر ایک فکر مند ہے کہ ہم کدھر کو جا رہے ہیں؟ معاشرے میں عدم برداشت ایک حد سے بھی تجاوز کیوں کر گئی ہے؟ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا معاملہ اس سانحے سے پہلے دس روز سے چل رہا تھا لیکن کسی نے اس قدر سنجیدگی اور بردباری کا مظاہرہ نہیں کیا جس قدر یہ معاملہ اس کا متقاضی تھا۔ محکمہ صحت پنجاب، پنجاب بار کونسل ڈاکٹروں کی تنظیموں، پولیس اور خاص طور پر حکومت پنجاب اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سمیت ہر ایک اس سانحہ کا ذمہ دار ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ اتنے بڑے واقعہ کے بعد بھی نہ کوئی اس سے سبق لینے کو تیار ہے نہ اس بات کا اہتمام کیا جا رہا ہے کہ مستقبل میں ایسے واقعات کو رونما ہونے سے روکا جائے نہ کوئی پہلے حکمت عملی اور لائحہ عمل تھا نہ اب اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لئے کوئی کاوش یا خواہش نظر آتی ہے جو قومیں سیکھنا اور آگے بڑھنا چاہتی ہیں وہ ایسے ہی مواقع سے فائدہ اٹھا کر قانون سازی، آئین سازی اور قواعد و ضوابط مرتب کرتی ہیں۔

لیکن ایسا کوئی اہتمام نہیں کیا جا رہا بلکہ ہر کوئی دوسرے فریق کی غلطیاں نکالنے میں مصروف ہے۔ وکلاء جو معاشرے کا پڑھا لکھا طبقہ کہلاتا ہے زور زبردستی کے نظام پر بضد ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حملہ آور گروہ سے بار اور دیگر تمام وکلاء خود کو علیحدہ کر لیتے اس طرح وکلاء برادری کے بارے میں جو منفی تاثر اور ردعمل پیدا ہو چکا ہے اس سے یہ طبقہ محفوظ رہتا۔ 

ڈاکٹر حضرات نے قدرے بہتر رویہ اپنایا اور حملے کے بعد نہ مظاہرہ کیا نہ ہڑتال کی تاہم یہ بات بھی غلط نہ ہو گی کہ ماضی میں ینگ ڈاکٹرز ہڑتال بھی کرتے رہے ہیں اور مریضوں کو تنگ بھی کرتے رہے ہیں وہ ماضی میں طویل ہڑتالوں میں مصروف رہے ہیں اس لئے ان کا بھی تاثر معاشرے میں کوئی زیادہ قابل تحسین نہ رہا ہے پولیس انتظامیہ کا کام ہی لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہے اس میں وہ قطعی ناکام رہی وہ بے بس رہی اور کسی قسم کی حکمت عملی اپنانے سے قاصر نظر آئی۔ 

وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے اس واقعہ کو سیاسی رخ دینے کی افسوسناک کوشش کی لیکن کیمرے کی آنکھ سب کچھ دکھا رہی تھی کون کیا کر رہا ہے وکلاء کس طرح کے نعرے لگاتے ہوئے پی آئی سی کی جانب بڑھ رہے ہیں دراصل مدبر اور پُر خلوص لیڈر اور عام وزیر میں یہ ہی فرق ہوتا ہے اس واقعہ کو سیاست سے بالاتر ہو کر آئندہ کے لئے بہتر حکمت عملی اور لائحہ عمل مرتب کرنے کا ذریعہ بنایا جا سکتا تھا تحریک انصاف کی پالیسی ہی یہ رہی ہے کہ ہر الزام ماضی کی حکومت پر عائد کر دیا جائے لیکن یہاں سی سی ٹی وی سب کچھ سب کے سامنے من و عن سامنے لا رہا تھا۔ فیاض الحسن نے یہ بھی کہا کہ میں نے کئی وکلاء کو عام افراد سے تشدد سے بچایا سوال پھر یہ ایک بار پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ان کا کام تھا؟ انتظامیہ اور پولیس کیا کر رہی تھی؟ عام تاثر ہے کہ معاشرے میں عدم برداشت اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا رویہ ہمارے موجودہ سسٹم سے ابھر کر سامنے آیا ہے۔ 

وزیراعظم عمران خاں کے ماضی میں دھرنوں میں تقاریر جس میں مخالفین کے لئے دھمکیاں اور غیر محتاط زبان استعمال کی گئی تھی بلکہ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ یہ المیہ اسی کا شاخسانہ ہے۔ شیخ رشید بھی مرو مر جائو جلائو گھیرائو کی باتیں کرتے رہے ہیں معاشرے میں یہ رویہ اوپر سے آخر کار نیچے سرایت کر چکا ہے۔

ایسے واقعات اور حالات کے بعد یہ بحث زور پکڑ جاتی ہے کہ کیا عثمان بزدار پنجاب کے لئے موزوں اور آئیڈیل وزیر اعلیٰ ہیں؟ ایک بڑا طبقہ ان کی صلاحیت، اہلیت اور ہنر مندی پر ایک عرصے سے سوالیہ نشان اٹھا رہا ہے لیکن کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا یہ عمران خاں کی ضد ہے کہ کوئی سیاسی مجبوری ہے اس کا تفصیلی تجزیہ درکار ہو گا شاید عمران خاں سمجھتے ہوں کہ دوبارہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں مسائل اور مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں خاص طور پر معاشی اقتصادی میدان میں ناکامی، مہنگائی، بیروزگاری کے بعد اب تحریک انصاف کی 2018کے انتخابات کے فوراً بعد والی پوزیشن نہیں رہی جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کے وعدے پر جو ووٹ حاصل کئے تھے ضروری نہیں کہ اب جنوبی پنجاب کے ارکان اس وعدے پر اعتبار کر کے تحریک انصاف کے ہی کسی اور امیدوار کو ووٹ دیں اب اتحادی جماعتوں کو بھی اپنی شرائط منوانے کا ایک بھرپور موقع مل جائے گا۔ آزاد امیدواروں کا رویہ بھی ضروری نہیں کہ پہلے جیسا ہو ان کی اپنی شرائط ہوں گی ۔ 

رانا ثناء اللہ، شاہد خاقان عباسی، احد چیمہ اور خواجہ حسن فواد بغیر کسی ثبوت ریفرنس کے طویل عرصے سے جیلوں میں بند یا زیر حراست ہیں یہ سارے احتسابی عمل کو مشکوک کر رہا ہے اور دھندلا رہا ہے اپوزیشن سارے عمل کو انتقامی قرار دے رہی ہے عام لوگ اب احتساب کے نعرے سے بے زار نظر آتے ہیں۔ تحریک انصاف کو اس قدر آسان، سیدھی وکٹ ملی تھی لیکن وہ چوکے چھکے نہ لگا سکی۔ مریم نواز خاموش ہیں سابق گورنر زبیر احمد کہتے ہیں کہ جو حکومت کے خلاف بولتا ہے اسے پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے مریم نواز اپنے والد اور والدہ کی وجہ سے خاموش ہیں لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس صورتحال کی وجہ سے عوام کے مسائل حکومت کی نا اہلی، نالائقی کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور اگر کیا جا سکتا ہے تو آخر کب تک؟

ایسا نہ ہو کہ وقت پلٹا جائے ملک کے مجموعی خراب حالات سے کوئی اور فائدہ اٹھا لے یہ نہ ہو کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کہ رہے نہ اُدھر کے رہے۔ کوئی اور ہی حالات کیش نہ کرا لے۔ مسلم لیگ اور تمام اپوزیشن کو عوام اور ملک کا بھی خیال کرنا چاہئے۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین