سینئر قانون دان اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اعتزاز احسن نے سنگین غداری کیس کا فیصلہ لکھنے والے جج کی دماغی حالت پر سوال اٹھادیا۔
جیو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف اپنے آپ کو آئین و قانون سے بالاتر سمجھتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ 3 نومبر کو تکبر کے ساتھ چیف جسٹس سیمت دیگر ججوں کو گرفتار کیا گیا۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے اعتزاز احسن نے کہا کہ فیصلے میں لاش کو لٹکانے سے متعلق فیصلہ دینا جائز بات نہیں ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ ایک بیہودہ فیصلہ ہے اور جسٹس وقار سیٹھ نے جو کچھ کہا ہے وہ آئین پاکستان کے تحت ممکن نہیں ہے۔
اعتزاز احسن نے تجویز پیش کی کہ آئین کے آرٹیکل 211 کے تحت جسٹس وقار سیٹھ کی دماغی حالت کا جائزہ لیا جائے کہ کیا وہ جج بننے کے لیے موزوں ہیں یا نہیں؟
انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ ایک لحاظ سے مشرف کے حق میں چلا گیا ہے، کوئی بھی پاکستانی ایسا نہیں چاہے گا جو جسٹس وقار سیٹھ نے تجویز کیا۔
پی پی پی رہنما نے کہا کہ انسان کو پھانسی دی جاسکتی ہے لیکن اس کی لاش کو پھانسی نہیں دی جاسکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا فیصلہ لکھنے والوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں کارروائی ہونی چاہیے۔
یاد رہے کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائی تھی۔
خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا تفصیلی فیصلہ آج (19 دسمبر کو) جاری کیا گیا۔
عدالتی فیصلے کے مطابق جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف آرٹیکل 6 کے تحت مجرم قرار پائے، ان پر 2007ء میں آئین توڑنے، ایمرجنسی لگانے، ججز کو نظر بند کرنے کے الزامات ثابت ہوئے ہیں۔
تفصیلی فیصلے میں جسٹس وقار سیٹھ نے کہا ہے کہ پھانسی سے قبل اگر پرویز مشرف فوت ہو جاتے ہیں تو ان کی لاش ڈی چوک لائی جائے اور 3 روز تک وہاں لٹکائی جائے۔