کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہاہے کہ پرویز مشرف کیس کے تفصیلی فیصلے نے چیزوں کا رخ مکمل طور پر بدل دیا ہے،اب بحث سنگین غداری یا آئین کی پامالی سے ہٹ گئی ہے اور فیصلے میں واضح غلطیاں نظر آرہی ہیں، فیصلے کا پیرا 66 بہت دور رس ہے اور پوری چیز کو زیرو کردیتا ہے،فیصلے سے فوج پر منفی اثر ہوا،مخالفین کو چوک اور سڑکوں پر گھسیٹنا شہباز شریف کا شوق تھا، وہ مجھے بھی لندن کی سڑکوں پر گھسیٹنا چاہتے تھے، سیاسی بیان بازی الگ ہوتی ہے جج کا عہدہ اس سے بالاتر ہوتا ہے، جج لوگوں کی زندگیوں کے فیصلے کرتے ہیں، سیاسی رہنماؤں کو بھی ایسی باتیں کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہئے، جج وقار سیٹھ کیخلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل بھیجا گیا تو ان کا ٹرائل حکومت نہیں ججز کریں گے، وہ راستہ بند کردینا چاہئے جس میں ایک شخص خود کو اتنا مطلق العنان سمجھ لے کہ اپنے فیصلے میں کچھ بھی لکھ دے،میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ایک کے بعد ایک بحران پیدا کرتی ہے شدید ہوتا ہے تو الزام دوسروں پر لگا دیتی ہے،معاشی مسائل کی وجہ سے پاکستان کو سعودی عرب کی دھمکی ماننا پڑی۔وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ چھ سال پہلے غداری کا مقدمہ دائر کرتے وقت کابینہ کو شامل حال نہیں کیا گیا تھا، اس وقت مصطفیٰ امپیکس کیس نہیں آیا تھا جس میں وفاقی حکومت کی وضاحت کی گئی ہے، یہ قانونی نکتہ لاہور ہائیکورٹ کے سامنے اٹھایا گیا تھا جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی اسی ایشو پر سوال چل رہا تھا،خصوصی عدالت کو چونکہ اس دن فیصلہ دینا تھا اس لئے اس نکتہ کو بالائے طاق رکھ کر فیصلہ دیا۔ شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ آئین و قانون کی حدود کے اندر رہ کر ہر چیز کو دیکھا جاتا ہے، پرویز مشرف کیس کے تفصیلی فیصلے نے چیزوں کا رخ مکمل طور پر بدل دیا ہے،اب بحث سنگین غداری یا آئین کی پامالی سے ہٹ گئی ہے اور فیصلے میں واضح غلطیاں نظر آرہی ہیں، فیصلے کا پیرا 66 بہت دور رس ہے اور پوری چیز کو زیرو کردیتا ہے، بطور قانون کے ادنیٰ طالب علم میرا سر آج شرمندگی سے جھکا ہوا ہے، اکیسویں صدی میں ایک چیف جسٹس کیسے یہ فیصلہ دے سکتا ہے کہ ایک لاش کو نکال کر تین دن کیلئے ڈی چوک پر لٹکادیا جائے، کیا اس جملے کے بعد جج کی ذہنی صحت پر سوال اٹھانا غلط ہوگا۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ جج وقار سیٹھ کا فیصلہ اقلیتی نہیں ہے یہ فیصلہ انہوں نے ہی لکھا ہے، جج وقار سیٹھ کے فیصلے میں ا ن جملوں کے بعد خصوصی عدالت کو دوبارہ کورٹ بنانے کی درخواست کرنی چاہئے تھی کیونکہ بنچ کے ایک ممبر نے اپنا تعصب ظاہر کیا ہے، چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ سے متعلق جو باتیں ہوئیں یہ عوامی سطح پر تضحیک نہیں ہے، پرویز مشرف کیخلاف فیصلے خصوصاً پیرا 66کا مسلح افواج پر بہت منفی اثر ہوا ہے، اداروں میں توازن ہونا چاہئے ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے، کسی دوسرے ادارے پر اووراسٹیپ کر نے سے انتشار پیدا ہوتا ہے ہم اسے روکنے کی کوشش کررہے ہیں، اگر ایک شخص کی وجہ سے پورا سسٹم خراب ہورہا ہے تو وہ غلط ہے۔ شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ جج وقار سیٹھ کیخلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل بھیجا گیا تو ان کا ٹرائل حکومت نہیں ججز کریں گے، وہ راستہ بند کردینا چاہئے جس میں ایک شخص خود کو اتنا مطلق العنان سمجھ لے کہ اپنے فیصلے میں کچھ بھی لکھ لے، پرویز مشرف کیخلاف فیصلہ کیسے اسٹینڈ کرسکتا ہے، فیصلے کے پیرا 66نے اسے بے معنی کردیا ہے ،عمران خان کے دور میں high treason کا کیس چلتا رہا، جو بھی پراسس ہے اسے شفافیت کے ساتھ چلنا چاہئے، یہ عدالتی تاریخ کا بہت اہم کیس ہے جس میں فیصلہ ہونا تھا کہ high treason کیا ہے اور اس کی کیا سزا ہونی چاہئے۔ شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ مخالفین کو چوک اور سڑکوں پر گھسیٹنا شہباز شریف کا شوق تھا، وہ مجھے بھی لندن کی سڑکوں پر گھسیٹنا چاہتے تھے، سیاسی بیان بازی الگ ہوتی ہے جج کا عہدہ اس سے بالاتر ہوتا ہے، جج لوگوں کی زندگیوں کے فیصلے کرتے ہیں، سیاسی رہنماؤں کو بھی ایسی باتیں کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہئے، لوگ مجھے کہتے ہیں کہ احتساب کا ایک ہی ماڈل ہے سب چوروں کو پکڑ کر کمرے میں ڈال دو جب تک پیسے نہ دیں نہ چھوڑو، یہ عوامی قسم کے جذبات ہیں لیکن بطور لیڈر ہمارا کام ہے کہ انہیں بتائیں کہ قانون کے مطابق چیزیں کرنا ہوتی ہیں اس میں وقت لگتا ہے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ پاکستانی عوام کو ابھی تک نہیں بتایا گیا کہ سعودی عرب نے وزیراعظم عمران خان کو ایسا کیا کہا کہ وہ مہاتیر محمد سے وعدے کے باوجود ملائیشیا نہیں گئے، وزیراعظم عمران خان نے اپنے نہ جانے پر ترک صدر طیب اردوان اور مہاتیر محمد کو اعتماد میں لیا تھا، پاکستان نے کوالالمپور کانفرنس میں شرکت کیوں نہیں کی اس کی وجہ ترک صدر طیب اردوان نے کانفرنس میں شرکت کے بعد ترک میڈیا کو دیئے گئے انٹرویو میں بتائی ہے، ترک صدر کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان پر دباؤ ڈال کر اس کانفرنس میں شرکت نہیں کرنے دی، سعودی عرب میں چالیس لاکھ پاکستانی کام کرتے ہیں، سعودی عرب نے پاکستان کو دھمکی دی کہ وہ پاکستانیوں کو بے دخل کر کے ان کی جگہ بنگلہ دیشیوں کو نوکری پر رکھ لیں گے، ترک صدر نے مزید کہا کہ سعودی عرب نے پاکستان کو دیئے گئے پیسے اسٹیٹ بینک سے نکالنے کی بھی دھمکی دی،معاشی مسائل کی وجہ سے پاکستان کو سعودی عرب کی دھمکی ماننا پڑی، یہ بات وزیراعظم عمران خان نے پاکستانی قوم کو ابھی تک نہیں بتائی ہے کیا ترک صدر کو انہوں نے یہ بات بتائی، ترک صدر کے اس بیا ن کی پاکستان کی طرف سے ابھی تک کوئی تردید نہیں آئی ہے، حکومت اس حوالے سے خاموش ہے یعنی معاشی اور خارجہ پالیسی دونوں ہی خودمختار نہ ہونے اور ڈکٹیشن کا جو الزام گزشتہ حکومتوں پر عمران خان لگاتے تھے پی ٹی آئی حکومت میں وہ خودمختاری مزید کم ہوگئی اور ڈکٹیشن بڑھ گئی ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ دفتر خارجہ کے ترجمان نے کوالالمپور کانفرنس میں پاکستان کی شرکت نہ کرنے سے متعلق ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ مسلم امہ میں ممکنہ تقسیم کے حوالے سے اہم مسلم ممالک کے خدشات کو ایڈریس کرنے کیلئے وقت اور اقدامات کی ضرورت تھی،پاکستان مسلم امہ کے اتحاد کیلئے کام کرتا رہے گا،ترجمان دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں یہ نہیں بتایا کہ ترک صدر جو کہہ رہے ہیں صحیح ہے یا غلط ہے۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ایک کے بعد ایک بحرا ن کھڑا کرتی ہے، بحران جب شدت اختیار کرنے لگ جاتا ہے تو الزام دوسروں پر لگادیتی ہے، ایسا ہی پرویز مشرف کے کیس میں ہوا ہے۔