• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گوادر میں چین کی موجودگی امریکہ اور بھارت دونوں کے جسموں میں کانٹے کی طرح پیوست ہوئی ہے۔ لیکن ان کے درد کی تڑپ پاکستان کو برداشت کرنی ہے۔ کیا پاکستان اس کا درد سہنے کا حوصلہ رکھتا ہے؟ یہ ایک سوال ہے۔ عراق، لیبیا اور شام ہمارے سامنے ہیں، جہاں خانہ جنگی نے معاشرتی سکوت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔ یہاں ایک طرف تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا چین اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے پاکستان کو بچانے آئے گا؟ اور کہاں تک ساتھ کھڑا رہے گا؟ دوسرا مسئلہ جو اس سے بھی زیادہ اہم ہے کہ پاکستان خود اپنے آپ کو کہاں تک محفوظ رکھ سکے گا؟ کیونکہ دوسری طاقتوں کے بچانے یا بگاڑنے سے پہلے کسی بھی ریاست کی خودمختاری اورSovereignity کا تعلفق اس ریاست کے اپنے Muscles پر ہے۔ ایران نے امریکہ کو آنکھیں دکھائی ہیں تو اپنے عوام کی پشت پناہی کے بل بوتے پر وگرنہ برسوں پہلے ایران کا گھونٹ بھی بھرا جا چکا ہوتا۔ اس وقت پاکستان جن مسائل سے دوچار ہے، اس میں پاکستان کے لئے خاصا مشکل ہے کہ وہ خودکو بیرونی طاقتوں کا میدان جنگ بننے سے روک سکے۔ کیونکہ بنیادی مسئلہ اور بیماری پاکستان کے اندر ہے۔ ہم داخلی طور پر تقسیم ہیں اور یہ بات سمجھنے کو تیار نہیں کہ ہمارے نظام سیاست اور معاشرت میں دشمن کس شکل میں موجود ہے۔ بلوچستان میں دھماکے ہوتے ہیں، شیعہ کمیونٹی کو نشانہ بنایا جاتا ہے، ہم صرف یہ کہہ کر آرام سے بیٹھ جاتے ہیں کہ یہ ہماری ایجنسیوں کی ناکامی ہے۔ ہم اپنے سامنے اپنے ہاتھوں سے ملک کی گرفت کمزور ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں لیکن ہم دشمن کو دشمن کہنے اور بے نقاب کرنے کی جرا ¿ت نہیں رکھتے۔ سازشوں کو بے پردہ نہیں کرسکتے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ڈور ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے صدمہ جان سے گزر رہے ہوں گے۔ لشکر جھنگوی نے سانحہ کوئٹہ کی ذمہ داری قبول کی ہے جس سے اس نیٹ ورک کی صلاحیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ 1990ءکی دہائی میں بھی یہی لوگ سپاہ صحابہ کے نام سے اہل تشیع ہزارہ کے ساتھ لڑے تھے اور انہوں نے شمالی افغانستان میں ایرانی سفارت کار کا قتل بھی کیا تھا۔ لشکر جھنگوی اس گروپ کا شاخسانہ ہے جو 1994ءمیں سپاہ صحابہ پاکستان میں Split کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا۔ اس وقت بلوچستان میں ہونے والے حالیہ دہشت گردی کے واقعات دراصل نہ صرف گوادر پاک چین معاہدے سے جڑے ہوئے ہیں بلکہ ایران سے کھچاو ¿ رکھنے والے امریکہ اور مڈل ایسٹ کی بادشاہتیں بھی نہ صرف بغلیں بجا رہی ہیں بلکہ اپنی سرمایہ کاری کا ثمر دیکھ رہی ہیں۔ گارڈین میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں وکی لیکس کا حوالہ دیتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب دہشت گردوں کی کیش مشین ہے۔ امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بھی پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں سعودی فنڈنگ کو تسلیم کیا ہے۔ 2009ءمیں امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ کی جانب سے تمام امریکی سفارت کاروں کو میمو جاری کیا گیا تھا جس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان اور افغانستان میں خلیجی ریاستوں کی جانب سے انتہا پسندوں کو پہنچنے والی فنڈنگ کو روکنے کے لئے اپنی کوششوں کو دگنا کریں۔ لیکن یہ ایک سطح کی بات ہے، دوسری سطح پر آج امریکہ نہ صرف کئی جگہوں پر خلیجی ریاستوں کی جانب سے ان نیٹ ورکس کو ملنے والی اعانت کو جاری رکھنا چاہتا ہے بلکہ اس میں ان کا اتحادی بن کر کام کررہا ہے۔ جس کی مثال لیبیا، شام اور یمن میں سنی مکاتب فکر کو پہنچنے والی مالی امداد ہے۔ اس لحاظ سے لشکر جھنگوی، طالبان اور القاعدہ کے دیگر نیٹ ورکس سرگرم عمل ہیں۔ ان کا دائرہ ¿ کار محض پاکستان کے اندر تک محدود نہیں ہے بلکہ ان کی نوعیت عالمی ہے اور ان نیٹ ورکس کے وسائل ریاستوں کی طرح ہیں۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا ایک ادارہ "National Endowment For Democracy" (NED) بلوچستان انسٹیٹیوٹ فار ڈیویلپمنٹ کو براہ راست فنڈنگ کرتا ہے جس کا بلوچستان میں انسانی حقوق اور ڈیموکریسی پر کام ہے۔ اس ادارے کی میڈیا ورکشاپس ہوتی ہیں۔ انہوں نے زور دیا ہے کہ ان کے میڈیا سنٹر کو براہ راست اسمبلی کی کارروائی کی کوریج میں خصوصی جگہ دیں اس قسم کے پریشر ہماری حکومتوں اور اداروں پر عام آتے رہتے ہیں اور ہماری حکومتیں سر تسلیم خم بھی کرتی رہتی ہیں۔ امریکہ، اسرائیل اور خلیجی پارٹنرشپ میں لشکر جھنگوی ان کا نمایاں آلہ کار اور نیٹ ورک ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس نیٹ ورک کی ابتدا 1980ءکی دہائی میں خفیہ طور پر دوسرے نام سے اس لئے کی گئی تھی کہ انقلاب ایران کو کاو ¿نٹر کیا جا سکے۔ اس لحاظ سے بلوچستان میں آج بھی اس نیٹ ورک کی جانب سے اہل تشیع کو چن چن کے نشانہ بنانا سمجھ میں آتا ہے لیکن اس سب کا سدباب کیا ہوگا؟ جبکہ یہ نیٹ ورک بلوچستان، کے پی کے اور سندھ (کراچی) میں ہونے والی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ دیگر نیٹ ورکس بھی ان علاقوں میں بھرپور انداز میں سرگرم ہیں۔ ادھر پنجاب میں یہی نیٹ ورک سپاہ صحابہ کی شکل میں موجود ہیں۔ جماعت الدعوة جوکہ لشکر طیبہ کا آف شوٹ ہے، ان پر بھی دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات آتے رہتے ہیں لیکن یہ اب زبان زدوعام ہے کہ پنجاب اور دیگر صوبوں کے کئی سیاست دان ان نیٹ ورکس کے ساتھ اس لئے بھی اچھے تعلقات رکھتے ہیں کہ ان کا خلیجی فیکٹر مشترک ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن لشکر جھنگوی کے ساتھ آئندہ آنے والے انتخابات کے لئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کررہی ہے، اسی طرح سے یہ وار لارڈز کے نیٹ ورکس سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ میڈیا میں بھی اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔ آج پنجاب کے علاوہ تینوں صوبے بڑی دہشت گردی کا شکار ہیں، لگتا ہے پنجاب کو استثنیٰ حاصل ہے۔ یہی سوالیہ نشان ہے لیکن اس سب کچھ کے مستقبل قریب میں خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں کیونکہ جو شہر اور صوبے ان عناصر کی مرضی کے برعکس انتخابی نتائج دیں گے وہ علاقہ ان نیٹ ورکس کے غیض و غضب کی لپیٹ میں آجائے گا۔ اسی لئے ان معاملات پر حساس نظر کی ضرورت ہے وگرنہ ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے نتیجے میں محض غیرملکی سازش یا انڈیا اور یہودیوں کا ہاتھ کہہ دینا کافی نہیں ہوگا۔ چین، ایران، انڈیا اور افغانستان ہمارے پڑوسی ممالک ہیں، خطے میں اس کے لئے اولین شرط یہ ہے کہ ان نیٹ ورکس اور ان کی پشت پناہی کرنے والی طاقتوں کو خواہ وہ ہماری ہم مذہب ہوں یا ہم مسلک، انہیں بہرحال عوام کے سامنے بے نقاب کرنا چاہئے۔ کیونکہ وہ بھی تو ہماری تباہی کے درپے ہیں۔ بالآخر ان دہشت گرد نیٹ ورکس کو عوام نے ہی ناکام بنانا ہے۔ ان کا خاتمہ اب کسی چھوٹے موٹے حکمران یا حکومت کے بس کی بات نہیں رہی، نہ ہی کوئی اور ہماری جگہ پر یا ہماری لڑائی لڑنے آئے گا۔
تازہ ترین