• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ آٹھ دس روز پرانا قصہ ہے۔ بھٹک جانے کے بعد میں ایسی جگہ پہنچ گیا تھا جہاں پر انسان سے اس کی آخری خواہش پوچھی جاتی ہے۔ یہاں پر ایک وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔ میں آپ کو مخمصوں میں ڈالنا نہیں چاہتا۔ وہ جگہ جہاں مجھ سے میری آخری خواہش پوچھی جا رہی تھی وہ جگہ کال کوٹھڑی نہیں تھی۔ ہر وہ شخص جو اس دنیا میں آتا ہے، واپس جاتے ہوئے لامحالہ وہیں سے گزرتا ہے۔ اسی جگہ اس سے آخری خواہش پوچھی جاتی ہے۔ جو لوگ آگے نکل جاتے ہیں وہ پھر کبھی لوٹ کر نہیں آتے۔ کچھ لوگ آگے نہیں جاتے، وہ وہیں سے لوٹ جاتے ہیں اور پھر سے اپنے کام دھندے سے لگ جاتے ہیں۔ بھیڑ زیادہ تھی۔ مجھے کافی دیر وہاں رکنا پڑا تھا۔ میں نے وہاں کا نظام سمجھنے کی کوشش کی۔ میں نے محسوس کیا کہ ایسے لوگ جن کی دو، چار چھوٹی چھوٹی خواہشیں تھیں یا جن کی کوئی خواہش نہیں تھی، ان کو سفر جاری رکھنے کے لئے آگے کر دیا جاتا تھا۔ وہ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے تھے۔ یعنی گم ہو جاتے تھے۔ اور جن کی خواہشوں، تمنائوں، امیدوں اور خوابوں کی فہرست طویل ہوتی تھی، انہیں یہ کہہ کر واپس بھیج دیا جاتا تھا کہ جائو اور اپنے خوابوں کی بھیانک تعبیر دیکھنے کے لئے دنیا میں جھک مارتے رہو۔ تمنائوں کی تتلیوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے پاگل ہو جائو۔ بوجھ کم کرو۔ فالتو سامان لوگوں میں بانٹ دو۔ بوجھ اتنا اٹھائو جتنا سہار سکو۔ آگے راستہ کٹھن ہے۔ ہلکے پھلکے رہو گے تو کٹھن راستہ بھی آسانی سے کٹ جائے گا۔میں نے اپنی فہرست پر نظر ڈالی۔ خاصی لمبی تھی۔ بے ہودہ خواہشوں سے بھری ہوئی۔ مجھے لگا لامکاں کی سرحد پر پہرہ دینے والے خواہشوں کی فہرست پر نظر ڈالتے ہی مجھے واپس چلتا کردیں گے۔ میں نے سوچا جب تک میری باری آئے کیوں نہ میں اپنی خواہشوں کی فہرست پر نظر ڈالوں اور بے ہودہ قسم کی اور احمقانہ خواہشوں کو فہرست سے نکال دوں اور پھر میں نے ایسا ہی کیا۔ میں نے فہرست پر نظر ڈالی۔ تمام کی تمام اچھی بری خواہشیں میں یہاں درج نہیں کر سکتا۔ کچھ خواہشیں میں آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔

خواہش نمبر ایک:کہتے ہیں کہ بلی، شیر کے برابر ہوا کرتی تھی۔ شیرکی خالہ کہلاتی تھی۔ ایک روز بلی کو بدترین قسم کا وائرل انفیکشن ہو گیا اور وہ سکڑتے سکڑتے بلی بن گئی مگر وہ شیر کو پٹی پڑھانے سے باز نہیں آئی۔ میری خواہش ہے کہ میں اس بلی سے ملوں جس کو وائرل انفیکشن ہو گیا تھا۔ یہ ایک واہیات خواہش تھی۔ میں نے فہرست سے نکال دی۔

خواہش نمبر دو:میں آج تک جن نامور اور پھنے خانوں سے ملا ہوں وہ خود کو عقلِ کُل اور باقی دنیا کو احمق سمجھتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ میں ایک ایسے شخص سے ملوں جو خود کو بیوقوف اور باقی دنیا کو عقلمند سمجھتا ہو۔ یہ خواہش بھی مجھے اچھی نہیں لگی۔ میں نے فہرست سے نکال دی اور اسی نوعیت کی کئی ایک خواہشیں میں نے خارج کر دیں۔

خواہش نمبر تین:میں اس شخص کا نام اور عہدہ جاننا چاہتا ہوں جس کے حکم پر اپنی ذاتی رولز رائس کار اور پارسی دوستوں اور سر عبداللہ ہارون کی اعلیٰ گاڑی اور ایمبولینس کے ہوتے ہوئے قائداعظم کو ایک پھٹیچر ایمبولینس میں ڈال کر گورنر ہائوس لے جانے کا حکم دیا تھا، جب قائداعظم تشویش ناک حالت میں کوئٹہ سے کراچی پہنچے تھے۔ پھٹیچر ایمبولینس کا ڈرائیور کون تھا؟ اس نےماڑی پور روڈ پر عین اس جگہ یہ کہہ کر گاڑی روک دی کہ انجن میں خرابی ہو گئی ہے جس جگہ چند قدموں کے فاصلے پر کراچی کا سب سے بڑا ریفیوجی کیمپ لگا ہوا تھا۔ اس کیمپ میں ہندوستان کے پسماندہ علاقوں سے آئے ہوئے لوگ تھے۔ زخمی تھے۔ بیمار تھے۔ وہ تو یہ سمجھ کر پاکستان آئے تھے کہ پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ درختوں پر اشرفیاں لگی ہوئی ہوں گی۔ وہ سب طیش میں تھے۔ غصے میں تھے۔ منصوبہ بندی کرنے والوں نے سوچا ہو گا کہ مہاجر کیمپ سے لوگ نکل آئیں گے اور ایمبولینس پر دھاوا بول دیں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔ دو گھنٹے تک قائداعظم کی ایمبولینس چلچلاتی دھوپ میں کھڑی رہی۔ ایسی گھنائونی سازش کرنے والے شخص کا میں نام اور عہدہ جاننا چاہتا ہوں۔ یہ خواہش بھی میں نے بادلِ نخواستہ خواہشوں کی فہرست سے نکال دی۔

خواہش نمبر چار:میں اس شخص کا نام اور عہدہ جاننا چاہتا ہوں جس کے حکم پر ایک اجنبی، غیر مانوس شخص کو اعلیٰ افسران اور سفیروں کے بیچوں بیچ عین اسٹیج کے سامنے بٹھایا گیا تھا۔ اسٹیج پر پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان کو آنا تھا اور تقریر کرنی تھی۔ وزیراعظم لیاقت علی خان تشریف لے آئے۔ تقریر کرنے کیلئے روسٹرم پر آئے۔ منہ سے سلام دعا کے دو الفاظ مشکل سے نکلے تھے کہ عین سامنے بیٹھے ہوئے اجنبی نے ریوالور نکالا اور گولی چلا دی۔ ایک المیہ، ایک سانحہ اپنی جگہ مگر وہ شخص جس نے قاتل سیّد اکبر کو روسٹرم کے سامنے بٹھایا تھا، کون تھا؟ کون تھا وہ شخص؟ یہ خواہش بھی میں نے خواہشوں کی فہرست سے نکال دی۔

خواہش نمبر پانچ:ستر، بہتر برس سے میں نے ایسے حکمراں آتے اور جاتے ہوئے دیکھے ہیں جو اقتدار میں آنے کے بعد کام کرنے کے بجائے صبح، شام پچھلی حکومت کا رونا روتے ہوئے مدت حاکمیت کے پانچ برس گزار دیتے ہیں۔ ہر آنے والا حاکم پچھلے حاکم کو چور، ڈاکو، لٹیرا ثابت کرنے میں سرگرداں رہتا ہے اور اسی تگ و دو میں پانچ سال گزار دیتا ہے۔ میری سب سے بڑی خواہش ہے کہ مرنے سے پہلے ایک ایسی حکومت کو اقتدار میں آتے ہوئے دیکھوں جس کا سربراہ یعنی حاکم اقتدار میں آنے کے بعد کام سے لگ جائے۔ پچھلی حکومت کو برا بھلا کہنے کے بجائے کام کر کے دکھائے۔

میری پانچویں خواہش دیکھنے کے بعد لامکاں کی سرحد پر مامور افسر اعلیٰ نے کہا:کئی بار مرنے اور کئی بار جنم لینے کے بعد شاید تم کبھی ایسا پاکستانی حکمراں دیکھ سکو جو پچھلی حکومتوں کو کوسنے کے بجائے کام کرے۔ کیا تم بار بار مرنے اور بار بار جنم لینے کیلئے تیار ہو؟

تازہ ترین