• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پاکستان نے کراچی ٹیسٹ کی کامیابی سے بہت کچھ جیت لیا

پاکستان نے کراچی ٹیسٹ جیت کر بہت کچھ جیت لیا،ہوم گرائونڈز پر 10سال بعد پہلی سیریز کھیلی اور جیتی،سال بھر کی مسلسل ناکامیوں سے دامن چھڑایا ،یہی نہیں بلکہ سال کا اختتام کسی اکلوتی ٹیسٹ فتح سے کر ہی لیا ۔دہشت گردی کی مکمل شکست کا اعلامیہ جاری ہوا،کسی بھی ٹیم کے لئے پاکستان کے سفر سے انکار پر بڑی فرد جرم تیار ہوئی کہ نہ آنے کی وجہ بتائیں ۔سری لنکا کرکٹ حکام ،کھلاڑیوں اور سکیورٹی اداروں نے دن رات کام کرکے پاکستان کے میدانوں میں محفوظ کرکٹ کی کرنیں روشن کیں،سب ہی مبارکباد کے مستحق ہیں۔

اس سیریز سے پاکستان کو عابد علی جیسا بیٹسمین مل گیا جسکی قسمت و مستقبل کا تعین 2020کرے گا،کراچی ٹیسٹ کی فتح کے ساتھ پاکستان کی پہلی اننگ کی 191 پر آئوٹ ہونے کی ناکامی،اسپنرز کے قحط کی رقم ہوتی کہانی،پیسرز کی مسلسل چلتی ناتجربہ کاری نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا ہے،چیف سلیکٹر ہیڈ کوچ مصباح الحق اور بولنگ کوچ وقار یونس کے لئے یہ سوچنے اور سمجھنے کا وقت ہے ،بہتر ہوگا کہ ابھی سے کمزوریاں دور کرلی جائیں۔

دوسری اننگ میں اوپنرز شان مسعود،عابد علی،بابر اعظم اور ظہر علی کی سنچریز نے پاکستان کو کمانڈنگ پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم نےسال کا آخری ٹیسٹ سری لنکا کے خلاف کھیلا ،اس سال یہ مجموعی طور پر اسکا6واں میچ تھا،اس سے قبل کھیلے گئے 5میچز میں سے 4ہارے اور ایک ڈرا رہا،جنوبی افریقا سے2،آسٹریلیا سے 2 میں شکست ہوئی ، کراچی ٹیسٹ بیک وقت پاکستان اور سری لنکا کے لئے تاریخی اعتبار سے اہمیت اختیار کرگیا تھا اور دلچسپ بات یہ تھی کہ دونوں کے لئے تاریخی طور پر یہ میچ 1991 کی یاد تازہ کرسکتا تھا کیونکہ دونوں سائیڈز کی اسی ایک سال یعنی 1991 سے کچھ یادیں جڑی ہیں ایک کے لئے حسین اور دوسرے کے لئے سنگین ہیں۔ اگر پاکستان یہ میچ ہار جاتا تو 1991 کے بعد یہ پہلا سال ہوتا کہ جب ٹیم بنا ٹیسٹ کا میابی کے سال کا اختتام کر رہی ہوتی ،1991میں ٹیم نے صرف 2 میچز کھیلے تھے اور کسی بھی میچ کی فتح میں ناکام رہی تھی۔

دوسری جانب سری لنکن کرکٹ ٹیم بھی 1991سے پاکستان میں باہمی ٹیسٹ سیریز نہیں ہاری،اس دوران اس نے 1995 اور 2000میں ٹیسٹ ٹرافی اپنے نام کی تھی۔ اگر لنکن ٹیم یہ میچ جیت جاتی تو وہ 1991 کے بعد پاکستانی سر زمین پر ٹیسٹ سیریز نہ ہارنے کا ریکارڈ برقرار رکھ لیتی گویا دونوں ممالک کے لئے 1991کی یادیں تازہ ہو سکتی تھیں،چنانچہ پاکستان نے فتح حاصل کرکے ایک تو سال میں فتح کا ٹیسٹ کھاتہ کھول ہی لیا اور 1991کی یادوں کے تذکرے سے بچ گئے جبکہ لنکن ٹیم کراچی میں شکست کے ساتھ ہی سیریز بھی ہارگئی اور پاکستانی سرزمین پر 1991 کے بعد وہ پہلی سیریز ہارگئے۔ 

سال 2019 کا اختتام ہونے کو ہے،پاکستان کی ٹیسٹ مہم ختم ہوگئی،سال کے آخر میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ،انگلینڈ اور جنوبی افریقا باکسنگ ڈے ٹیسٹ کھیلیں گے،اسکے علاوہ باقی ٹیسٹ ممالک کی مہم ختم ہوچکی ہے۔آسٹریلیا اور انگلینڈ اب تک 11،11 ٹیسٹ کھیل چکے جو سب سے زیادہ ہیں ،آسٹریلیا نے 7 جیتے اور 2 ہارے جبکہ انگلینڈ 4 میں کامیاب ہوا اور 5میں ناکام رہا تو سب سے زیادہ تو کامیابیاں 7 آسٹریلیا کی رہیں مگر بھارت 8میں سے 7 جیت کر نہ صرف اسکے برابر ہے بلکہ واحد ٹیسٹ ملک ہے جو اس سال سنگل ٹیسٹ میچ بھی نہیں ہارا۔

11ممالک میں پاکستان واحد بڑا ٹیسٹ ملک تھا جو کراچی ٹیسٹ سے قبل سال بھر ایک بھی میچ نہ جیت سکا اسکے علاوہ بنگلہ دیش اور آئرلینڈ کی ٹیمیں ہیں جو کامیابی کا کھاتہ نہ کھول سکیں ۔افغانستان جیسی ٹیم نے سال میں 3میں سے 2میچز اپنے نام کرلیئے۔پاکستانی ٹیم کی پرفارمنس مایوس کن رہی ،کراچی ٹیسٹ سال بھر کی واحد فتح بھی ہے اور اسی ایک میچ کی بنیاد پر اکلوتی سیریز کی ٹرافی بھی ملی ہے۔

بیٹسمینوں میں پاکستان کے بابر اعظم 6میچز میں 616 رنزبناکر دنیا بھر کے ٹاپ 10 بلے بازوں میں شامل ہیں ،ویرات کوہلی ان سے 2میچز زیادہ 8 کھیل کر ان سے 4 رنزکم 612 پر ہیں ،شان مسعود کے 440 اور اسد شفیق کے 378 رنزرہے ۔عابد علی 2میچزمیں 321 رنزکر کے دنیا بھر میں شہرت حاصل کرگئے،ون ڈے ،ٹیسٹ ڈیبیو پر سنچریز کے منفرد کارنامے کے بعد مسلسل دوسری ٹیسٹ سنچری نے شہ سرخیوں میں جگہ بنائی ۔

کپتان اظہر علی کی بنائی گئی سنچری انکی ناکامیوں کا ازالہ نہیںکرسکتی ہے۔انکے نام کے گرد سرخ دائرہ ہے،مزید ناکامیاں انہیں بہت پیچھے لے جائیں گی ان کی کپتانی کی صلاحیت پر بھی بحث شروع ہوچکی ہے،سری لنکا کےخلاف کراچی ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں انکی فیلڈ پلیسمنٹ پر کمنٹیٹرز سے لیکر تجزیہ نگاروں تک آوازیں بلند کی ہیں اور انکی حکمت عملی کو ناکافی قرار دیدیا ہے۔ 

2109 میں ڈیوڈ وانر کی پاکستان کے خلاف سال کی سب سے بڑی اننگ 335 رنزکی اکلوتی ٹرپل سنچری رہی،پاکستان کے لئے سب سے بڑی ا ننگ عابد علی کی 174 کی تھی ،بولنگ میں پیٹ کمنزکی 11میچزمیں 54 وکٹیں سب سے آگے رہیں پاکستان کے لئے شاہین آفریدی کی 5میچزمیں 20 سے بھی کم وکٹیں ہم عصر میں سب سے بہتر کارکردگی رہی،یاسر شاہ کا ستارہ گردش میں ہی رہا۔عابد علی اور شان مسعود کی 278 رنزکی شراکت سال بھر کی 5ویں بڑی پارٹنر شپ تھی۔

تازہ ترین
تازہ ترین