• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیو سے مبینہ طور پر القاعدہ سے ہمدردی رکھنے کے الزام میں چھ مسلمان اہلکاروں کو نکال دیا گیا ہے جبکہ برطانوی ایم پی پیٹرک مرسر سے واقعہ کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ برطانوی میڈیا کے مطابق نکالے گئے چھ میںسے دو اہلکاروں پر الزام ہے کہ انہوں نے پاکستان میں القاعدہ کے ٹریننگ کیمپوں میں تربیت حاصل کی تھی۔ ادہر ہالینڈ کے ایک دفاعی تھنک ٹینک نے خبردار کیا ہے کہ القاعدہ ایک مرتبہ پھر مغربی مفادات پر حملوں کےلئے طیاروں کا استعمال کر سکتی ہے جبکہ پاک افغان سرحدی علاقوں میں موجود دہشت گرد مغرب پر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ تھنک ٹینک کے مطابق القاعدہ ماضی کے مقابلے میں اب زیادہ کنارے پر لگ چکی ہے تاہم وہ اب بھی مغرب کےلئے خطرہ ہے۔ رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کلارک نے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک افغان سرحدی علاقوں میں ایسے لوگ میں جو دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کی کوششیں کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں تاہم چار پانچ منصوبے ایسے تھے جن کا تعلق برائے راست برطانیہ سے تھا۔ میرے خطاب سے برطانیہ میں دہشت گرد تنظیموں نے نئی حکمت عملی اختیار کرلی ہے چونکہ اپنی انتہا پسندانہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کو جاری رکھنے میں مالی پریشیانیوں کا سامنا تھا اس لئے ان تنظیموں نے اپنی سرگرمیوں کو مالیہ فراہم کرنے کےلئے اندرون و بیرون ملک رقم منتقل کرنے کے لئے اب برطانیہ میں ڈرائیونگ لائسنس اور ڈرائیونگ ٹیسٹ کااستعمال شروع کر دیا ہے۔ دھوکہ دہی سے حاصل کئے جانے والے لائسنس سے فرضی شناخت کے قیام میں مدد ملتی ہے جس سے دہشت گرد تنظیموں کو حاصل ہونے والی رقومات کی برطانیہ میں اور بیرون ملک رقم کی منتقلی اور بینکوں میں کھاتے کھولنے کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔ حکومت برطانیہ نے اس فراڈ، دھوکہ دہی اور ڈرائیونگ لائسنس کے خلاف اقدام اور کارروائی کا آغاز کر دیا ہے لیکن اس سے کوئی خاص اثرات نہیں پڑنے والے کہ دہشت گردی کے الزام میں جیل جانے والے 30 دہشت گرد آئندہ ایک برس کے دوران رہا ہو جائیں گے اور آزادانہ طور پر کمیونٹی میں گھوم پھر سکیں گے ان میںسے بعض برطانوی فوجیوں کوقتل کرنے کی منصوبہ بندی کرنے والے افراد میں شامل ہیں تو بعض دہشت گردی کی تربیت سے فارغ ہوئے ہیں اور بعض ان تنظیموں کو مالی اور رقوم کی فراہمی میں دھوکہ دہی اور فراڈ جیسی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔ ان میں سے چند نے خودکش حملہ کرنے والوں کی مدد کی تھی۔ ایک اطلاع کے مطابق جیل سے رہا ہونے کے بعد انہیں برطانیہ میں قائم ہوسٹلوں میں رکھا جائے گا جہاں عموماً منشیات کے سمگلروں اور فوجداری مقدمات میں ملوث افراد کو رکھا جاتا ہے لیکن برطانوی پولیس منشیات اور ڈکیتی میں ملوث افراد سے تو نمٹ سکتی ہے مگر ”جہادیوں“ سے نمٹنا اس کے لئے مشکل ہوگا کہ جہادی دوسروں کو بڑے پیمانے پر قتل کرنے کی منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں ان سے عام مجرموں کی طرح نمٹنا نامناسب ہوگا۔ ادھر کچھ عرصہ پہلے برطانیہ نے مسلمان نوجوانوں کو امریکہ جانے والی پرواز کو تباہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے کے الزام میں سزا سنائی ہے انہیں چالیس برس تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے پھینکا گیا ہے لیکن جن افراد کو 2000ءیا اس کے ارد گرد میں سزائیں ہوئیں ہیں وہ بہت جلد دوبارہ ”ہم“ میں آملیں گے۔ یہ افراد دوتہائی سزا مکمل کرنے کے بعد رہا ہو جائیں گے خواہ اس سے قبل ان کی پے رول پر رہائی کو مسترد کر دیا گیا ہو، پرواز بم سازش کے ملزمان یا مجرمان کو عمر قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں یہ سازش اپنی دہشت ناکی کے اعتبار سے 9/11 کے حملوں کے مساوی تھی سازش کے سرغنہ عبداللہ احمد علی کو 40 سال قید کی سزا دی گئی ہے جبکہ اس کے ساتھیوں کو 36 اور 32 سال کی قید کی سزائیں دی گئیں ہیں۔ سازش اگر کامیاب ہو جاتی تو شاید 11 ستمبر سے بھی زیادہ لوگ ہلاک ہو جاتے یہ لوگ بھی زیادہ سے زیادہ دس سال میں رہا ہو جائیں گے لندن کا یہ گینگ پاکستان میں القاعدہ کے رہنماﺅں سے مسلسل رابطے میں تھا اور اس سازش کا بڑا حصہ پاکستان میں تیار کیا گیا برطانیہ کے انسداد دہشت گردی کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ جیوری کو ای میل دکھائی گئی تھیں جن میں ملزمان کے بحراوقیانوس کے اوپر طیارے کو تباہ کرنے کے لئے سافٹ ڈرنکس کی بوتلوں میں بم تیار کرنے سے متعلق پاکستان میں موجود ساتھیوں اور القاعدہ سے رہنمائی مانگی تھیں۔ ان رابطوں کا مرکزی کردار راشد رﺅف تھا جو اپنے چچا کے قتل کے بعد 2002ءمیں پاکستان چلا گیا تھا اور القاعدہ میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ خفیہ اداروں کو اس بات کا بھی یقین ہے کہ 2005ءمیں لندن کے ٹرانسپورٹ سسٹم پر بم دھماکے کرنے والے گینگ کا اہم رابطہ کار پاکستان سے واپسی پر ہیتھرو ایئرپورٹ پر روکا گیا تھا اور اس سے بڑی تعداد میں بیٹریاں اور بڑی مقدار میں چینی سے تیار کردہ پاور ڈرنک برآمد ہوا تھا اور یہ دونوں اشیاءبم بنانے میں استعمال ہوتی ہیں اس سے قبل دہشت گردی نے تباہی کی وارداتوں میں سافٹ ڈرنک یا پاﺅڈر ڈرنک کبھی استعمال نہیں کیا تھا یہی وجہ تھی کہ ان گرفتاریوں کے بعد 2006ءمیں اچانک تمام عالمی پروازوں میں مائعات کی بوتلیں اور ڈبے لے جانے پر پابندی عائد کر دی گئی حتیٰ کہ بچوں کے لئے دودھ کی بوتلوں کو بھی ممنوع قرار دے دیا گیا۔ لیکن اب حال ہی میں ان پابندیوں کے خاتمہ کے لئے امید کی ایک کرن نظر آئی ہے جس سے ہائی ٹیک سکینرز کی وجہ سے پروازوں میں لیکویڈ لے جانے پر عائد پابندیاں مکمل طور پر ختم ہو سکتی ہیں۔ ہائی ٹیک سکینر تیار کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ایک سکینر پر 30 ہزار پونڈ لاگت آتی ہے۔ برطانیہ میں تیار ہونے والے اس آلے کا یورپ بھر کے ایئرپورٹوں پر استعمال جاری ہے اس سکینر سے ایکسرے ٹیکنالوجی کے ذریعے خطرناک محلول والی بوتلوں، ڈبوں اور دوسرے کین کی بغیر کھولے نشاندہی ہو جاتی ہے۔ سکینرز انسانی آنکھ سے یکساں دکھائی دینے والے لیکویڈز میں فرق کو واضح کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،یہ نئی ٹیکنالوجی ہے اور یہ بلیک اینڈ وائٹ سے کلر ٹیلی ویژن کی جانب سفر جیسی ہے کہ جیسے عمر جب پیچھے مڑ کر دیکھتی ہے تو زندگی ہمیشہ بدلی ہوئی نظر آتی ہے۔
چمکتے سورج سے کوئی کہہ دے کہ اپنی کرنوں کو گن کے رکھ لے
میں اپنی دھرتی کے زرے زرے کو خود چمکنا سکھا رہا ہوں!
تازہ ترین