بلاول کا سب سے پہلے تو مقابلہ اپنے ہی گھرانے سے ہے۔ اُس کے نانا کی سحر انگیز شخصیت اور سیاسی بصیرت کو اُن کے سیاسی مخالفین بھی مانتے تھے۔ کیا بلاول اس میراث کو آگے لے جا پائیں گے؟ پھر بلاول کی والدہ محترمہ بھی جدوجہد، تدبّر، صبر اور قربانی کی ایک مکمل داستان تھیں سو بلاول اس کوالٹی کی سیاست اور فراست کو چھو پائیں گے؟
یہی نہیں اُن کے والد آصف علی زرداری کو مصلحت کا شہنشاہ گردانا جاتا ہے اور اُنکے مخالف مکتب ِفکر نے اُنہیں مردحُر قرار دیا، کیا بلاول سیاست کے اس فراز پر بھی پہنچ پائیں گے؟ یہ تو ہے سیاست کا وہ معیار جو اُنہیں وراثت میں ملا۔ جس تناظر میں اُنہیں اپنا لوہا منوانا ہے تاکہ ایک سیاسی فہم اور صبر و استقلال کی مثال بن سکیں۔
ایک قابلِ توجہ بات یہ بھی کہ بینظیر بھٹو کو جس طرح مجبوراً چھوٹی عمر میں سیاست کا آغاز کرنا پڑا ایسے ہی بی بی کے بیٹے کو کم عمری میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین کا ڈھول گلے میں ڈالنا پڑا۔ بی بی کی وصیت کے مطابق بلاول کو اس وقت پارٹی قیادت سونپی گئی جب وہ صرف انیس برس کے تھے۔ یہ سب خوشی سے نہیں ہوا جیسے بینظیر بھٹو کو ذوالفقار علی بھٹو کے جہان فانی سے کوچ کر جانے کے بعد پارٹی قیادت سنبھالنا پڑی ایسے ہی بلاول کو ذمہ داری ملی۔
اسے اتفاق کہیں یا قربانیوں اور جدوجہد کا سلسلۂ جاریہ بہرحال اس حسن اتفاق کے پیچھے ایک طویل داستان ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلزپارٹی نے ہر کڑے امتحان یا ناانصافی میں وفاق کا علم اٹھائے رکھا، پاکستان کھپے کا نعرہ اس کی زبان پر رہا اور جمہوری عزم ان کے ذہن و قلب میں۔ مخالفین نے بھی پیپلزپارٹی کو ایک اکیڈمک پارٹی قرار دیا۔
گو پارٹی گزشتہ دو انتخابات سے سندھ تک سکڑی دکھائی دیتی ہے باوجود اس زوال کے بلاول کے پاس جہاندیدہ و سنجیدہ قائدین کی ایک لمبی فہرست موجود ہے جو پرسوں بی بی کی برسی پر لیاقت باغ راولپنڈی پنڈال اور اسٹیج پر نظر بھی آئے۔
رضا ربانی یوسف رضا گیلانی راجہ پرویز اشرف، سید خورشید شاہ، قمر زمان کائرہ، نوید قمر، فرحت اللہ بابر، فاروق نائیک، اعتزاز احسن، نیر بخاری وغیرہ۔ الیکشن 2018سے قبل پورے سندھ میں ’’قوت اور فرحت بخش‘‘ عناصر نے یہ تاثر دیا تھا، اب کے بار اندرون سندھ سے جی ڈی اے پیپلزپارٹی کو روند ڈالے گا جبکہ کراچی اور حیدرآباد سے پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کو نیست و نابود کردیں گی۔
اس جھانسے میں سوائے فہمیدہ مرزا خاندان کے کوئی نہ آیا بلکہ مہر خاندان جیت اور وزارت کے باوجود ضمنی الیکشن میں پیپلزپارٹی کی فتح کی نوید بن کر واپس آیا۔
راقم کو بلاول ہاؤس لاہور کا وہ گولڈن جوبلی تاسیسی اجتماع یاد ہے جس میں اسٹیج پر قمر زمان کائرہ نے وراثت اور میراث کا فرق بیان کیا تھا اور پیپلزپارٹی کو کارکنان کو قائدین کے لئے میراث قرار دیا۔
پھر الیکشن 2018سے قبل بھری بزم میں اور اس کے علاوہ بھی متعدد بار عمران خان نے کائرہ کی تعریف و توصیف کی اور براہِ راست تحریک انصاف میں شمولیت کی باقاعدہ دعوت دی لیکن کائرہ نے وفا اور محبت کے دامن کو خیرباد نہیں کہا۔
وہ الگ بات ہے کہ ندیم افضل چن اور شوکت بسرا جتنے اس گولڈن جوبلی پر چہکے اور مہکے اتنا ہی پھسلے۔ میں نہیں بھول سکتا کہ نوابزادہ غضنفر گل نے وہاں باقاعدہ دھمال ڈالی مگر الیکشن نون لیگ سے لڑا۔ فردوس عاشق اعوان بھی وہاں ایک عام سی حیثیت میں موجود تھیں۔
چونکہ مشکلات میں داغ مفارقت لوگوں نے ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کو دیا تھا چنانچہ بلاول کے ہاں یہ بہانا بالکل نہیں چلے گا۔ مقتدر حلقے ہوں اور اڑ جانے والے پنچھی، یہ سب تو چلتا رہتا ہے۔ اب لیڈر وہی کہلائے گا جو بندگلی سے راستہ نکالنے کے ہنر سے آشنا ہو۔
سیاست کی دیوار کے پار نظر نہ جائے تو لیڈری کیسی؟ زمانہ یا ملک کوئی بھی ہو دو باتوں کو فراموش کرنا ممکن نہیں ایک یہ کہ ہر پارٹی اپنا حجم بڑا کرنا چاہتی ہے ، اپنی بقا کیلئے لیکن وہ بعض اوقات بھول جاتی ہے کہ کون پارٹی میں آرہا ہے۔
دوسری بات یہ کہ اپوزیشن کا کردار بہت اہم ہوتا ہے اگر اپوزیشن کا گلا دبا دیا جائے یا اس کا وجود ختم کرنے کی ٹھان لی جائے تو جہاںجمہوریت کا قلع قمع ہو جاتا ہے۔ وہاں حزبِ اقتدار کی وضع داری اور جمہوری رویوں پر بھی کاری ضرب آتی ہے۔
یقیناً اس کا فائدہ متحرک اپوزیشن لیڈر کی جانب جاتا ہے۔ اس وقت تک حکومت اپوزیشن کو پھلنے پھولنے کے بےشمار مواقع فراہم کررہی ہے، نظر اس پر بھی ہے کہ استفادہ نون لیگ والے کرتے ہیں یا بلاول موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جو اچھا عوامی نباض ہوگا وہی فائدہ اٹھائے گا۔
نیب اور پس دیوار زنداں کی صعوبتیں ابھی تک تو اپوزیشن کے لئے فائدہ مند ہیں دیکھنا ہوگا کہ حکومت اپنی ساکھ کی بحالی کیلئے کیا کچھ کرپاتی ہے۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے جس طرح بلاول بھٹو زرداری نے پھر سے ’’اسلام ہمارا دین ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے، طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘‘ کا نعرہ بلند کیا ہے، کیا عوام اُس پر اعتبار کرلیں گے یا بلاول اِس نعرے پر پورا اتر سکیں گے؟
واضح رہے کہ ان تین نعروں کی گونج میں ستر کے انتخابات میں نوزائیدہ پیپلزپارٹی نے جو کامرانی سمیٹی اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ جب تک بلاول کوئی کمال نہیں دکھا پاتے اور قول و فعل کے اس تضاد سے پرے نظر نہیں آتے جو اس حکومت میں بالخصوص اور دیگر سیاسی جماعتوں میں بالعموم ہے۔
تب تک بلاول کے مستقبل کو روشن قرار دینا آسان کام نہیں۔
المختصر بلاول کے پاس انمول اثاثہ ہے اور میراث و وراثت کا خزانہ بھی بحران کا تجربہ اور مشکلات کا سامناکرنےکا تجربہ بھی۔ اب وقت اور بلاول کاتدبر فیصلہ کرے گا کہ پیپلزپارٹی کا مستقبل اور گرفت کتنی باقی ہے۔ بلاول کو نانا اور ماں کی ڈگر پر ہر حال میں آنا ہوگا۔ ورنہ۔۔۔