تمام عالم میں اقومِ متحدہ یا کسی بھی ادارے کی طرف سے ذیابیطس، تپ دق یا کینسر سے آگاہی کے لئے کوئی دن مقرر کئے جانے کا یہ جواز سمجھ میں آتا ہے کہ اعداد و شمار کی مدد سے کسی بیماری یا معاشرتی ذمہ داری کے بارے میں ہوشیار کئے جانے کے لئے نشان دہی کی جا سکتی ہے کہ اس بیماری کے ذرائع کیا ہیں؟ اور ان سے بچائو کے کیا طریقے ہیں؟ لیکن کیا معاشرہ اس حد تک زوال کا شکار ہو چکا ہے کہ آپ کو کسی خاص دن یاد دلایا جائے کہ آپ کی کوئی ماں بھی ہے جس نے آپ کو جنم دیا ہے۔
مغرب میں مدرز ڈے یا فادرز ڈے منائے جانے کے لئے بہت سی وجوہات تلاش کی جا سکتی ہیں کہ چہرہ روشن اندرون تاریک تر، شادی کا انسٹی ٹیوٹ تو آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے والدین کا رول بھی 18سال بعد ختم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا مدرز ڈے اور فادرز ڈے ہی والدین کو یادگار بناتے ہیں۔
معاشی حالات بہت بہتر ہونے کی وجہ سے دِل کو بہلانے کیلئے بےشمار تہوار Haloweenاور Valentineوجود میں لائے گئے ہیں جو سارے کا سارا ملین ڈالر بزنس ہے اور بزنس ٹائیکون ان کو ختم نہیں ہونے دیں گے۔ مدرز اور فادرز ڈے اسی تجارت کا ایک جذباتی پہلو ہیں۔ جسے بہترین طریقے سے بیچا جا رہا ہے۔ مغرب کی کامیابی کا یہی راز ہے کہ وہ غلط کام میں بھی دلچسپی اور عام لوگوں کی شمولیت کا کوئی نہ کوئی بہانہ تراش لیتے ہیں اور نہایت باریک بینی سے اسے عین عبادت بنا دیتے ہیں۔ماں کی نسبت سے جس رحمت، شفقت اور حفاظت کا تصوّر ذہن میں آتا ہے۔ اسے اگر 70 گنا بڑھا دیا جائے تو وہاں سے معبود حقیقی کی رحمت کا آغاز ہوتا ہے لہٰذا ماں کے نام سے آج ایک ہی نام ذہن میں آتا ہے۔ شوکت خانم ،پہلے کینسر کا ایک ہی نام تھا۔ ہلاکت اور کسمپرسی۔ مگر اب کینسر کے ساتھ شوکت خانم کا نام منسلک ہوگیا ہے۔ شوکت خانم جو مایوس اور نااُمید مریضوں کی مسیحائی کا دُوسرا نام ہے۔ بحر ظلمت میں اُمید کی کرن ہے۔
عمران خان کے درد سے وہی لوگ آشنا ہو سکتے ہیں جو اپنے چاہنےوالوں کو کینسر جیسے مہلک مرض میں مبتلا پا کر اس درد سے گزر رہے ہوں۔ خاص طور پر وہ لوگ جو کینسر کے علاج کے ناقابل برداشت خرچ کی استطاعت نہیں رکھتے۔ 30سال قبل لاہور میں شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال کی تعمیر ایک بیٹے کی اپنی ماں کو زندہ جاوید کر دینے سے بہتر کوئی یادگار نہیں ہو سکتی۔ جہاں کینسر کے 75فیصد مریضوں کا علاج بلامعاوضہ ہوتا ہے اور بھی لوگوں نے اپنے محبوب کی یاد میں عظیم الشان یادگاریں تعمیر کی ہوں گی۔ لیکن ماں کی یاد میں قائم کردہ یہ صدقہ جاریہ کسی تاج محل سے کم نہیں بلکہ افادیت میں کئی گنا زیادہ۔بلا شک و شبہ شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال کی تعمیر اور پرورش میں تمام پاکستانیوں کا بے مثال تعاون ہے جو ایثار، قربانی، سخاوت اور فیاضی کی ایک لازوال داستان رقم کر رہے ہیں مگر کیوں؟ پاکستانی قوم ان کم گفتار، مجسم عشق و عمل روشن چہروں پر مشتمل ہے جن کی ساری جدوجہد افراد اور اداروں پر اعتماد سے مشروط ہے۔ نہ ان کو نام سے غرض ہوتی ہے نہ نمود سے۔ یہ نہایت خاموشی سے اپنی ساری توانائیاں درد کی مسیحائی کے لئے وقف کر دیتے ہیں۔یہ اعتماد فرد اور اداروں کی شکل میں عبدالستار ایدھی، عمران خان، حکیم محمد سعید، ڈاکٹر اَدیب رضوی اور الخدمت فائونڈیشن نے بحال کر رکھا ہے۔ مگر کیسے؟ مسلسل اور لازوال خدمت خلق، ایک جذبہ اور وہ بھی درد آشنائی کا۔ ہمارا معاشرہ انہی محسنین کی وجہ سے ممتاز اور منفرد ہے ۔پاکستانی قوم کی اکثریت اس سبق سے آگاہ ہو چکی ہےکہ اسلامی تعلیمات کے ذریعے رواداری، اخوت اور باہمی محبت پر مبنی معاشرہ بنانا مقصود تھا۔ وہ جانتی ہے کہ جو مسلمان کسی دُوسرے مسلمان کی حاجت روائی کے بندوبست میں مصروف ہو۔ اللہ تعالیٰ اس بندے کی حاجت روائی اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ ہر فرد تاج محل تعمیر نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہ اس کا پابند ہے لیکن وہ اپنی استطاعت کے مطابق اس کارخیر میں تعاون کر سکتا ہے۔ پچھلے دو عشرے گواہ ہیں کہ پاکستان میں کینسر کے مرض میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ بیشتر اموات کی وجہ بھی یہ مرض ہے۔ 29دسمبر 1994کو شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال لاہور کا افتتاح ہوا۔ 29دسمبر 2005کو پشاور یونٹ کا آغاز ہوا۔ ان دونوں اسپتالوں سے 2017تک 243633مریضوں کو تشخیص اور علاج کی سہولتیں فراہم کی گئیں۔ جن کا سالانہ خرچ اوسطاً گیارہ بلین روپیہ کے قریب ہے۔ 29دسمبر 2017کو کراچی یونٹ کی تعمیر کا آغاز کیا جا چکا ہے اور 29دسمبر 2021کو ان شاء اللہ یہ کینسر اسپتال کراچی اور سندھ کے متاثرین کے لئے سروس کا آغاز کر دے گا۔ شوکت خانم نے اپنی جان کینسر سے لڑتے ہوئے ہار دی۔ مگر اس ماں کو کیا علم تھا کہ اس کی چند سالہ کشمکش حیات و موت اس کے جوان بیٹے کو ایک خواب کے لئے جینے کی توانائی فراہم کر گئی ہے۔ ایسا خواب جس کی تعبیر حیاتِ نو کی نوید ہے۔
تو کیوں نہ کم از کم پاکستان میں 29دسمبر کو Mothers Dayکے لئے وقف کر دیا جائے اور تمام پاکستانی مادر وطن سے جڑے ہوئے تمام اداروں کی سرپرستی کو اپنا شعار بنا لیں۔ جہاں آغوش مادر کا سکون ہو۔