زندگی کے سفر میں ماضی کی آہٹ بڑی دلفریب لگتی ہے لیکن مجھے اِس سفر کے دوران بعض اتنی سنگین وادیوں سے گزرنا پڑا کہ اُن کی یاد طبیعت میں تلخی سی پیدا کر دیتی ہے۔ یہ تلخی حالات کی سنگینی پیدا کرنے والوں سے نفرت اور دوری پیدا کر دیتی ہے۔ ایسے میں انسان یہ سوچنے پہ مجبور ہوتا ہے کہ اے کاش یہ دور دوبارہ نہ آئے اور اِن سختیوں کا سامنا دوبارہ نہ کرنا پڑے۔ نجانے کیوں مجھے آج کل ایوبی آمریت کا وہ دور اکثر یاد آتا ہے جب ہر طرح کا اظہار پابند ِ سلاسل تھا، حب الوطنی کے نام پر ہر اختلافی آواز پر غداری کا الزام چپکا دیا جاتا تھا اور فضا پر خوف سا طاری رہتا تھا۔ میں طالبعلم تھا، رگوں میں تازہ خون تیزی سے حرکت کرتا تھا اور جبر کے خلاف بغاوت کی آگ بھڑکاتا تھا۔
نتائج سے لاپروا ہر پابندی سے ٹکرانے اور اسے پاش پاش کرنے کو جی چاہتا تھا۔ دل سے یہی دعا نکلتی تھی کہ یہ دور جلد ختم ہو اور آئندہ یہ جبر دیکھنا نصیب نہ ہو۔ اسی کیفیت نے جمہوریت کے سحر میں مبتلا کیا۔ جمہوریت چاہے کتنی بھی بےثمر ہو، کم از کم اظہار کی کھلی چھٹی اور مکمل آزادی نصیب ہوتی ہے اور جب اظہار آزاد ہو تو بہت سی کمزوریوں سے صرفِ نظر کیا جا سکتا ہے البتہ جب آزادیٔ اظہار کو بیڑیاں پہنانے کی کوشش کی جائے تو چھوٹی چھوٹی حکومتی ناکامیاں بھی بڑی بڑی ناکامیاں لگتی ہیں۔ یہی وہ تلخ حقیقت ہے جو حکمرانوں پر آشکار نہیں ہوتی چنانچہ وہ جبر اور اختیار کی زنجیریں کسنے میں راحت محسوس کرنے لگتے ہیں۔ جب وقت گزر جاتا ہے تو تاریخ کا فیصلہ اُن کے نام پر سیاہ دھبے سجا دیتا ہے اور اُن کے قومی خدمت کے کارنامے جبر کی سیاہی کے سامنے ماند پڑ جاتے ہیں۔ شاعر دانائی، علم اور مہارت رکھتا ہو تو کہتا ہے
نہ سوالِ وصل، نہ عرضِ غم، نہ حکایتیں نہ شکایتیں
تیرے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گئے
سرراہ ہمارے لباس پہ یہ سیاہی جو لکھی گئی
یہی داغ تھے جنہیں لے کے ہم سرِ بزمِ یار چلے گئے
میں اُس وقت گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے آنرز کا طالبعلم تھا جب جناب فیضؔ سے یہ اشعار ایک مشاعرے میں سنے۔ اظہار پہ قدغن عروج پہ تھی۔ جی چاہا کہ دامنِ قبا تار تار کر دوں لیکن واہ واہ کے شور میں آگ بجھ گئی اور چنگاریاں باقی رہ گئیں۔ ہوسٹل آنے کے لئے گول باغ سے گزر رہا تھا تو ایک نوجوان کو آواز سے یہ اشعار پڑھتے سنا؎
قدم قدم پہ ہیں ہمرنگ زمیں دام ہی دام
شاخ در شاخ گلستاں میں قفس ملتے ہیں
خوف و دہشت کا وہ پُرہول سماں طاری ہے
کوئی پتا بھی کھڑکتا ہے تو دل ہلتے ہیں
یہ ایک نوجوان شاعر کی جوانی کے جوش اور بےخوفی کی ترنگ میں ڈوبی ہوئی آواز تھی۔ میں نے لاہور کے ایک مقبول ہفت روزہ میں لکھنا شروع کر دیا تو ایک روز کالج کے شفیق پرنسپل ڈاکٹر نذیر نے دفتر میں بلایا اور دراز سے ایک خط نکال کر کہا سیکرٹری ایجوکیشن کا حکم نامہ آیا ہے تمہیں کالج سے نکال دیا جائے۔ میرا مشورہ ہے کہ تعلیم مکمل کر لو پھر جو جی چاہے لکھتے رہنا۔ چند منٹ کی خامشی کے بعد کہا، میں حکومت کو لکھ دیتا ہوں کہ تم آئندہ نہیں لکھو گے۔ یہی ایک صورت ہے تمہارا تعلیمی مستقبل بچانے کی۔ میرے الفاظ کی آبرو تمہارے سپرد ہے۔ میں گردن جھکائے، سر دبائے بوجھل قدموں کے ساتھ باہر نکل آیا۔ 30سال بعد جب میں سیکرٹری تعلیم پنجاب بن کر کرسی پر بیٹھا تو یہ یاد ایک خیال بن کر ذہن سے گزر گئی کہ کبھی اس کرسی سے تمہارے کالج سے اخراج (Expulsion)کے آرڈرز جاری ہوئے تھے۔ اظہار پہ پابندیوں کا خوف آمرانہ دور سے وابستہ ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جو جمہوریت آمرانہ روش اختیار کرتے ہوئے اظہار کو زنجیریں پہنائے وہ آمریت سے بھی بدتر ہوتی ہے۔
ماضی کی آہٹ کی دوسری آواز ضیاء الحق کے خوفناک دور کی یاد تازہ کرتی ہے۔ فضا پہ جبر مسلط تھا اور آزادیٔ اظہار پہ کوڑے کے پہرے کھڑے تھے۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں نوائے سحر سے محرومی کی سزا سنا دی گئی تھی اور جب مرغِ بسمل کو نوائے سحر سے محروم کر دیا جائے تو وہ زخمی پرندے کی مانند تڑپنے لگتا ہے۔ میں سرکاری ملازم ضرور تھا لیکن ملازمت کی زنجیریں بغاوت کی وہ چنگاریاں بجھانے میں ناکام رہی تھیں جو قدرت نے میری فطرت میں رکھ دی تھیں۔ مقصد پیغام تھا ناکہ نام۔ چنانچہ قلمی ناموں سے کالم نگاری شروع کر دی۔ محکمہ اطلاعات کے کارکنوں کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ وہ اخبار میں لگے کتابت شدہ اس کالم کو ’’اکھاڑ‘‘ دیں جس سے بغاوت کی بُو آتی ہو۔ چھپنے سے پہلے اخبار کی ’’تلاشی‘‘ لی جاتی تھی اور اخبارات اکھاڑے گئے مواد کی خالی جگہ کے ساتھ چھپ جاتے تھے۔ پنجاب کا محکمہ اطلاعات میرے کالم اکثر اکھاڑ دیتا اور میرے قلمی نام بدلنے کی خبر حکمرانوں کو شام سے پہلے پہنچ جاتی۔ وضاحتیں، انتباہ اور تادیبی کارروائی کا یہ سلسلہ مجھے سروسز ٹربیونل لے گیا اور پھر میں سپریم کورٹ میں جا کر سرخرو ہوا۔ اس جانکاہی کے چند برس بعد جب میں پنجاب میں سیکرٹری اطلاعات مقرر ہوا تو میرے کالم اکھاڑنے والا افسر میرے سامنے آنے سے گریزاں تھا۔ اسے سمجھایا کہ فرض کی سرانجام دہی پہ خوف کیوں۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید ایک انگریزی آرٹیکل پر اتنا بگڑیں کہ نوکری سے برخاستگی کا نوٹس دے دیا۔ پہلے دورِ حکومت میں او ایس ڈی بنا کر گھر بٹھا دیا تھا۔ اس سے قبل کہ میں برخاست ہوتا، قدرت نے انہیں وزارتِ عظمیٰ سے برخاست کر دیا۔ ریٹائر ہو کر میں آزاد ہوں۔ ملک میں آزادی اور جمہوریت ہے۔ آج کل ماضی کی یہ تلخ یادیں نجانے کیوں ذہن پہ دستک دینے لگتی ہیں اور مجھے ماضی کی آہٹ قریب آتی محسوس ہونے لگتی ہے؟