• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کو کبھی حیرت نہیں ہوتی کہ جب آپ کسی کو تنگ نہیں کرتے تو پھر اور کوئی آپ کو کیوں تنگ کرتاہے؟ ہمیں لوگوں نے بڑا تنگ کررکھا ہے۔ ناک میں دم کررکھا ہے ۔

چین کی نیند سونے نہیں دیتے ۔ کوڑے کرکٹ سے دو نوالے روٹی کے تلاش کرنے نہیں دیتے ۔ ہمارا ان سے کسی قسم کا لینا ہے ، نہ دینا ہے۔ پھر بھی وہ لوگ ہمیں تنگ کرتے رہتے ہیں۔

ہمیں تنگ کرنے والےہوتے تو لوگ ہیں، مگر وہ سیاستدان ہوتے ہیں۔ جب ایک آدمی سیاستدان بن جاتا ہے تب اس کا شمار لوگوں میں نہیں ہوتا۔اس کا شمار سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔میں وضاحت کردیتا ہوں۔

آدمی ووٹ دیتے ہیں۔سیاستدان ووٹ لیتے ہیں۔اگر آپ ووٹ لینے والے ہیں،تو پھر آپ کا شمار سیاستدانوں میں ہوگا۔اگر آپ ووٹ دینے والے ہیں تو پھر آپ کا شمار لوگوں میں ہوگا۔ ووٹ دینے والا خواب میں بھی سیاستدان نہیں بن سکتا۔ اس کے نصیب میں ووٹ ڈالنا لکھ دیا گیا ہے۔

ووٹ دینے والے لوگ ووٹ لینے والے سیاستدانوں کو تنگ نہیں کرتے۔اس کے برعکس ووٹ لینے والے سیاستدان ووٹ دینے والوں کو تنگ کرتے ہیں۔

سیاستدان دوطرح کے ہوتے ہیں۔ ایک طرح کے سیاستدان اقتدار میں ہوتے ہیں۔ دوسری طرح کے سیاستدان اقتدار میں نہیں ہوتے ۔ ہمارے ہاں 72 سالہ روایت ہے کہ جو سیاستدان اقتدار میں نہیں ہوتے ، وہ سیاستدان اقتدار میں آئے ہوئے سیاستدانوں کوتنگ کرتے رہتے ہیں۔

آپ کو یاد دلادوں کہ اقتدار میں آئے ہوئے سیاستدانوں کو حاکم یا حکمراںکہتے ہیں یہ ہماری بہتر سالہ تاریخی حقیقت ہے کہ جب حکمرانوں سے حکومت نہیں چل پاتی تب اپنی نا اہلی اور ناکامی کا تمام تر بوجھ ان سیاستدانوں پر ڈال دیتے ہیں جو اقتدار میں نہیں ہوتے۔ اس طرح کا سیاسی مزاج ہماری روایت بن چکا ہے۔ سیاستدان جانیں ان کاکام جانے پھر وہ چاہے اقتدار میں ہوں، یا پھر اقتدار سے آوٹ ہوں۔

ان کی آپس کی چپقلشیں ان کو مبارک مگر یہ بات قطعی سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ ہم لوگوں کو یعنی ووٹ دینے والوں کو کیوں چھیڑتے ہیں۔ ہم لوگوں نے کیا بگاڑا ہے سیاستدانوں کا؟ ہم ان کے لینے میں، نہ دینے میں۔پھر بھی سیاستدان خاص طور پر اقتدار میں آئے ہوئے سیاستدان ہم لوگوں کو کیوں تنگ کرتے رہتے ہیں؟ سیاستدانوں نے ہمیں لقب دیا ہے، غریب عوام۔ ہم لوگ اب غریب عوام کہلاتے ہیں۔

میں غریب عوام ہوں اور نجانے کب سے غریب عوام ہوں۔ میرے آباواجداد غریب عوام تھے۔ میرے رشتے دار ، دوست احباب غریب عوام ہیں۔ یہ کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں ہے۔ ہم غریب عوام تھے ۔ ہم غریب ہیں۔ ہم کبھی بھی امیر عوام نہیں تھے۔ ہمارے پاس دولت کے انبار نہیں تھے ۔ ایک ایک غریب عوام کے دس دس بینک اکاؤنٹ نہیں تھے۔

عزت کی دووقت کی روٹی ہمارے لئے نعمت تھی ۔ ہم غریب عوام چکرا تب جاتے ہیں جب اقتدار میں آئے ہوئے سیاستدان ہمیں بتاتے ہیں کہ پچھلے حاکموں نے تم غریب عوام کی دولت لوٹ کراپنی تجوریاں بھرلی ہیں۔ ان کے پاس جو دولت ہے، وہ غریب عوام سے لوٹی ہوئی دولت ہے۔ تمہاری دولت ہے۔

اب ہم غریب عوام پرانے دور کے غریب عوام نہیں رہے ۔ٹاک شوز دیکھ دیکھ کرہم غریب عوام سیانے ہوگئے ہیں۔ ہم غریب عوام نے تہیہ کرلیا ہے کہ ہم کھوج لگا کررہیں گے کہ اسقدر بے شمار دولت ہمارے پاس کب تھی، اور اگرتھی توہم نے کہاں چھپا کررکھی تھی؟

سیاستدانوں کو کیسے پتہ چلا کہ ہمارے پاس دولت کے انبار تھے؟ ہم عوام بظاہر غریب دکھتے تھے ، مگر درپردہ دولتمند تھے۔ جب بہت سے لوگ اپنی بات پر اڑ جاتے ہیں اور ٹس سے مس نہیں ہوتے، تب ان کی بات بادل نخواستہ ماننی پڑتی ہے۔ اقتدار میں آئے ہوئے تمام کے تمام سیاستدان کہتے ہیں کہ پچھلے حکمرانوں نے ہم غریب عوام سے ہماری دولت چھین لی تھی ، بلکہ لوٹ لی تھی تب ہمارا ماتھا ٹھنکتا ہے۔

ہم قبول کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ہم عوام بہت زیادہ دولتمند ہوا کرتے تھے۔ ہمارے پاس دولت کے انبار ہوا کرتے تھے۔ اور پھر نہ جانے کیسے سیاستدانوں نے ہم سے ہماری دولت لوٹ ،لی اور ہمیں کنگال بنادیا۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اس راز سے پردہ اٹھاکر دم لیں گے۔

ایک روز میں نے اپنے داد سے پوچھا: دادا ہم کب دولتمند ہوا کرتے تھے، اور سیاستدانوں نے ہم سے ہماری دولت کب لوٹ لی تھی؟

دادا نے مجھے ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا :بائولا ہوگیا ہے کیا؟ میں جب پیدا ہواتھا تب غریب تھا۔ میرا دادا بھی غریب تھا۔ میرے دادا کادادا بھی غریب تھا ۔ تجھے کس بدبخت نے پٹی پڑھائی ہے کہ ہم غریب عوام کبھی امیر عوام ہوا کرتے تھے۔ میں بھاگ کھڑا ہوا۔

ایک وفد بناکر ہم اقتدار میں آئے ہوئے ایک سینئر سیاستدان سے ملے ۔ہم نے سیاستدان سے پوچھا: ہم فاقہ کش نہیں جانتے کہ ہمارے پاس اسقدر بے تحاشا دولت تھی ۔ آپ کو کیسے پتا چلا کہ ہمارے پاس دولت تھی اور وہ دولت پچھلے حکمرانوں نے ہم سے کب چھین لی تھی؟

سیاستدان نے ہمیں آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا: تم لوگ جاہل، ان پڑھ، گنوار ہو۔ اس لئے کچھ نہیں سمجھتے۔ ہم سمجھتے توسب کچھ ہیں۔مگر بول نہیں سکتے۔ صرف ووٹ لینے والے بول سکتے ہیں۔ ہم نہیں۔

تازہ ترین