رقبے کے اعتبار سے مُلک کا سب سے بڑا صوبہ ہونے کے ناتے بلوچستان کو ”نصف پاکستان“ بھی کہا جاتا ہے اور یہ آدھا پاکستان 2019ء میں بھی حسبِ سابق بدامنی، غُربت اور پس ماندگی سمیت دیگر معاشی و سماجی مسائل میں گِھرا رہا۔ حالاں کہ اس صوبے میں گہری جڑیں رکھنے والی دو جماعتیں، وفاق میں حُکم ران جماعت کی اتحادی ہیں اور ہر فورم پر صوبے کی نمائندگی موجود ہے۔
گرچہ 2018ء کے مقابلے میں صوبے میں امن و امان کی صورتِ حال نسبتاً بہتر رہی، لیکن کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں خود کُش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ رُکا نہیں اور ان واقعات میں زیادہ تر سیکوریٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا۔ 2019ء میں صوبے میں مجموعی طور پر دہشت گردی کے 72واقعات رُونما ہوئے، جن میں سیکوریٹی اہل کاروں سمیت 122افراد جاں بحق، جب کہ تقریباً 40سیکوریٹی اہل کار اور شہری زخمی ہوئے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر 16خود کُش حملے ہوئے، جن میں پولیس، ایف سی اور لیویز اہل کاروں سمیت 50افراد جاں بحق، جب کہ 112افراد زخمی ہوئے۔ 32بم دھماکوں میں سیکوریٹی اہل کاروں سمیت 46افراد جاں بحق، جب کہ 267زخمی ہوئے۔ اسی طرح 24دستی بم حملوں اور بارودی سُرنگ کے دھماکوں میں 30افراد جاں بحق اور 40زخمی ہوئے۔ قابلِ ذکر واقعات کا اگر مختصر جائزہ لیا جائے، تو 29جنوری کو لورالائی میں ڈی آئی جی پولیس کے دفتر پر خود کُش حملے میں 9پولیس اہل کار جاں بحق اور 21افراد زخمی ہوئے۔ 20مارچ کو سنجاوی میں لیویز چیک پوسٹ پر دہشت گردوں نے حملہ کر کے وہاں تعینات تمام 6اہل کاروں کو شہید کر دیا اور ان کا اسلحہ بھی ساتھ لے گئے۔
12اپریل کو کوئٹہ کے علاقے، ہزار گنجی کی فروٹ منڈی میں خود کُش حملے کے نتیجے میں 23افراد جاں بحق اور 50زخمی ہوئے۔ 16اپریل کو گوادر کے پہاڑی علاقے میں سیکوریٹی فورسز کے سرچ آپریشن کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں دو سیکوریٹی اہل کار شہید ہوئے۔ حُکّام کے مطابق جوابی کارروائی میں کالعدم بلوچ عسکریّت پسند تنظیم کے 4کارندے بھی مارے گئے۔ 18اپریل کو اورماڑہ میں کوسٹل ہائی وے پر مسلّح افراد نے مسافر بسوں سے نیوی کوسٹ گارڈ اور ایئر فورس کے 14اہل کاروں کو اُتار کر گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ مذکورہ اہل کار تعطیلات گزارنے اپنے گھر جا رہے تھے۔
11مئی کو گوادر کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل پر کالعدم تنظیم کے مسلّح افراد کے حملے میں نیوی اہل کار اور گارڈ سمیت 5افراد جاں بحق، جب کہ ایک کیپٹن سمیت 6اہل کار زخمی ہوئے۔ اس واقعے میں 6حملہ آور بھی ہلاک ہوئے۔ 13مئی کو سیٹلائٹ ٹائون میں دھماکے کے نتیجے میں 5پولیس اہل کار جاں بحق، جب کہ 13زخمی ہوئے۔ 16مئی کو مستونگ میں کائونٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ کے سرچ آپریشن کے دوران مبیّنہ طور پر کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے 9افرادمارے گئے۔ 24مئی کو کوئٹہ کے علاقے، پشتون آباد کی مسجد میں نمازِ جمعہ کے دوران بم دھماکے کے نتیجے میں پیش امام سمیت 4افراد جاں بحق، جب کہ 28زخمی ہوئے۔ 7جون کو زیارت میں بم دھماکے کے نتیجے میں دو گاڑیوں میں سوار 6سیّاح جاں بحق ہوئے۔
27جولائی کو تُربت کے علاقے، ہوشاب تجابان میں کارروائی کے دوران مسلّح افراد نے ایف سی اہل کاروں پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں ایک کیپٹن سمیت 4اہل کار جاں بحق ہوئے۔ 30جولائی کو سٹی تھانے کے سامنے پولیس وین کے قریب موٹر سائیکل بم دھماکے میں 5افراد جاں بحق، جب کہ 32زخمی ہوئے۔ 16اگست کو کچلاک کی ایک مسجد میں نمازِ جمعہ کے دوران بم دھماکے میں مسجد کے خطیب سمیت 4افراد جاں بحق، جب کہ 23زخمی ہوئے۔ 17اگست کو خضدار کے علاقے، زہری میں فائرنگ کے واقعے میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما، نواب زادہ میران امان اللہ زرک زئی، پوتے اور 2محافظوں سمیت جاں بحق ہوگئے۔
4ستمبر کو کوئٹہ مشرقی بائی پاس پر داعش کے مبیّنہ ٹھکانے میں آپریشن کے دوران 2خود کُش حملہ آوروں سمیت 5شدّت پسند ہلاک کیے گئے۔ اس موقعے پر 2سیکوریٹی اہل کار بھی جاں بحق ہوئے۔ 28ستمبر کو چمن میں موٹر سائیکل بم دھماکے میں جمعیت علمائے اسلام کے مولانا محمد حنیف سمیت 3افراد جاں بحق اور 17زخمی ہوئے۔ 31ستمبر کو لورالائی کے کالج اسٹیڈیم میں منعقدہ سرکاری تقریب کے دوران خود کُش حملے میں ایک سیکوریٹی اہل کار جاں بحق، جب کہ 3زخمی ہوئے۔ 15نومبر کو کچلاک میں بائی پاس پر سیکوریٹی فورسز کے ٹرک کے قریب دھماکے میں 3اہل کار جاں بحق اور 5زخمی ہوئے اور دہشت گردی کے ان تمام واقعات کی ذمّے داری بی ایل ایف، بی ایل اے، داعش اور جماعت الااحرار جیسی کالعدم تنظیموں نے قبول کی۔
2019ء کے دوران بلوچستان میں رُونما ہونے والے افسوس ناک واقعات میں جامعہ بلوچستان کا ویڈیو اسکینڈل بھی شامل ہے۔ اس واقعے پر تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد نے شدید غم و غُصّے کا اظہار کرتے ہوئے پورے صوبے میں شدید احتجاج کیا۔ مذکورہ واقعے کی تحقیقات کے لیے وزیر اعلیٰ بلوچستان کی جانب سے پارلیمانی کمیٹیز قائم کی گئیں۔ بعد ازاں، بلوچستان ہائی کورٹ کی جانب سے نوٹس لینے کے بعد معاملے کی تفصیلات سامنے آئیں اور یونی ورسٹی میں خفیہ کیمروں کے ذریعے طالبات کی ویڈیوز بنا کر انہیں ہراساں کیے جانے کا انکشاف ہوا۔
تفصیلات سامنے آنے کے بعد ہائی کورٹ کے احکامات کی روشنی میں یونی ورسٹی کے وائس چانسلر، جاوید اقبال کو اُن کے عُہدے سے ہٹا دیا گیا، جب کہ یونی ورسٹی کے 4ملازمین کو معطّل کر کے وسیع پیمانے پر واقعے کی تحقیقات شروع کردی گئیں۔ نیز، سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے یونی ورسٹی سے غیر ضروری کیمرے ہٹانے اور سیکوریٹی فورسز کی نقل و حرکت محدود کرنے کی سفارش کی۔ 2019ء میں بھی لاپتا افراد کا مسئلہ حل طلب رہا، البتہ ایک سو کے لگ بھگ افراد اپنے گھروں کو بھی پہنچے۔ مگر مزید کئی بلوچ نوجوان لاپتا بھی ہو ئے اور ان کی بازیابی کے لیے لواحقین مستقل احتجاج کرتے رہے۔
نیز، لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے ماما قدیر بلوچ کا احتجاجی کیمپ بھی بدستور قائم رہا۔ دوسری جانب صوبے کے پشتون علاقوں سے بھی نوجوان لاپتا ہونے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ نتیجتاً، اس معاملے کی بازگشت اسلام آباد کے ایوانوں میں گونجی اور بلوچستان میں قیامِ امن کے لیے لاپتا افراد کی بازیابی کو ناگزیر قرار دیا گیا۔ دسمبر کے آغاز میں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے مضبوط گڑھ، آواران سے 4ضعیف العمر بلوچ خواتین کی دہشت گردی کے الزام میں گرفتاری اور تصاویر میڈیا پر شائع و نشر کرنے پر صوبے کی قوم پرست سیاسی جماعتوں اور عوام کی جانب سے شدید ردِ عمل سامنے آیا۔ اس موقعے پر بعض طبقات کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ کچھ طاقتیں بلوچستان میں شورش کو ہوا دینے کے لیے جان بوجھ کر یہ اقدامات کر رہی ہیں۔
ترقّیاتی منصوبوں کی بات کی جائے، تو گرچہ 2019ء میں وزیرِ اعلیٰ، میر جام کمال نے بلوچستان کے ساحلی شہر، گوادر میں مختلف منصوبوں کا افتتاح کیا۔ تاہم، سی پیک کے تحت شروع ہونے والے ان منصوبوں سے عوام مستفید نہیں ہو سکے اور اس بات کا اعتراف وزیرِ اعلیٰ نے خود یہ کہہ کر کیا کہ سی پیک میں بلوچستان کے لیے صرف دو منصوبے رکھے گئے ہیں اور تاریخی منصوبے پر آنے والی مجموعی لاگت کا صرف 3فی صد بلوچستان پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ سی پیک میں بلوچستان کو نظر انداز کیے جانے کے باعث صوبے کی پس ماندگی اور احساسِ محرومی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
لہٰذا گوادر کے لیے ماسٹر پلان پر نظرِ ثانی کی جائے گی۔ ماضی کے برعکس سالِ گزشتہ میں صنعت و حرفت کی ترقّی کے لیے بھی بعض اقدامات کیے گئے۔ یاد رہے کہ بنیادی طور پر بلوچستان ایک زرعی صوبہ ہے، جس کی 70فی صد سے زاید آبادی زراعت سے وابستہ ہے۔ گزشتہ برس کے اوائل اور اواخر میں موسلادھار بارشیں اور برف باری بھی ہوئی، جس کے نتیجے میں خُشک سالی کافی حد تک کم ہو گئی اور صوبے کے عوام بالخصوص زمین داروں اور کسانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
تاہم، آبی وسائل کے تحفّظ کے لیے بر وقت اقدامات نہ کیے جانے کے باعث ماضی کی طرح گزشتہ برس بھی بارش کا پانی ضائع ہو گیا اور صوبائی دارالحکومت، کوئٹہ سمیت دیگر علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی قلّت کا مسئلہ شدّت اختیار کر گیا۔ یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ورلڈ بینک نے بلوچستان میں 20کروڑ ڈالرز کا آبی منصوبہ ملتوی کر دیا۔
اس ضمن میں ورلڈ بینک کا کہنا تھا کہ گزشتہ تین برس سے اس منصوبے میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔ یاد رہے کہ عالمی بینک کے تعاون سے بلوچستان میں آبی وسائل کی بہتری کے لیے 28جون 2016ء کو 3سالہ معاہدہ کیا گیا تھا۔ دوسری جانب فنڈز کی تقسیم میں مسائل اور سِول ورکس اور نظم و نسق کے فقدان کو بھی منصوبے کے التوا کا سبب قرار دیا گیا۔
بلوچستان وہ بد قسمت صوبہ ہے، جہاں صرف بد امنی اور پُر تشدّد واقعات ہی میں شہریوں کی جانیں نہیں جاتیں، بلکہ مختلف حادثات بھی معمول بن گئے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2019ء کے دوران ٹریفک حادثات کے بعد سب سے زیادہ ہلاکتیں کوئلے کی کانوں میں ہوئیں، مگر ان واقعات کے باوجود بھی کان کُنوں کے تحفّظ کو یقینی نہیں بنایا جا سکا۔ ہر چند کہ دُنیا کے ترقّی یافتہ ممالک میں بھی کان کُن حادثات کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔
تاہم، بلوچستان میں ان حادثات کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ 2019ء میں کوئٹہ سمیت صوبے کے دیگر حصّوں میں 50سے زاید کان کُن جاں بحق ہوئے۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ کوئلے کی کانوں سے اربوں روپے کمانے والوں نے غریب کان کُنوں کو کسی قسم کی سہولتیں فراہم نہیں کیں اور نہ ہی ان محنت کَش افراد کی حفاظت کے لیے مناسب انتظامات کیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کی طرح گزشتہ برس بھی بلوچستان میں فرسودہ طریقوں سے کان کُنی جاری رہی، حالاں کہ اگر تھوڑی سی محنت اور منصوبہ بندی کی جائے، تو نہ صرف اس شعبے کو جدید خطوط پر استوار کیا جا سکتا ہے، بلکہ کوئلے کی پیداوار میں اضافے سے صوبے کی معیشت میں بھی بہتری لائی جا سکتی ہے۔
اگر بلوچستان میں پائے جانے والے دیگر معدنی وسائل کی بات کی جائے، تو یہ صوبے کی ترقّی اور عوام کے معاشی و سماجی مسائل کے حل میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، بشرطیکہ متعلقہ حُکّام اور منصوبہ ساز اس سلسلے میں سنجیدگی و دُور اندیشی کا مظاہرہ کریں۔ قدرت نے بلوچستان کو سونے، چاندی ، تیل اور گیس سے لے کر ہر قسم کے معدنی وسائل اور دیگر نعمتوں سے سرفراز کیا ہے، لیکن بد قسمتی سے صوبہ ہنوز ان وسائل سے خاطر خواہ مستفید نہیں ہو پایا، بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث بلوچستان کے وسائل، مسائل میں کمی کی بجائے اضافے کا باعث بن رہے ہیں، جس کی ایک جیتی جاگتی مثال 2019ء میں بین الاقوامی ثالثی فورم کی جانب سے ریکوڈِک منصوبے میں بلوچستان حکومت پر عاید کیا جانے والا خطیر جُرمانہ ہے۔
یاد رہے کہ ریکوڈِک ایک پس ماندہ علاقہ ہے، جو بلوچستان کے ایران اور افغانستان سے ملحقہ سرحدی ضلعے، چاغی کے علاقے، نوکنڈی سے تقریباً 70کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ریکوڈِک کے قریب واقع سیندک نامی علاقہ بھی اپنے معدنی وسائل کی بدولت بین الاقوامی شُہرت رکھتا ہے اور یہاں ایک غیر مُلکی کمپنی سونے اور تانبے کے ذخائر تلاش کر رہی ہے۔ اگر ریکوڈِک منصوبے پر نظر ڈالی جائے، تو 1993ء پہلی بار یہاں معدنی ذخائر کی تلاش کے لیے ایک غیر مُلکی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا گیا۔
بعد ازاں، یہ منصوبہ ایک سے دوسری کمپنی کو سونپا جاتا رہا اور بالآخر ٹی تھیان کاپر کمپنی نے علاقے میں سونے، تابنے کے ذخائر کی تلاش کا کام شروع کیا۔ تاہم، یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ریکوڈِک معاہدے میں روزِ اوّل ہی سے بلوچستان کے عوام کا مفاد پیشِ نظر نہیں رکھا گیا۔ نتیجتاً، اس معاہدے کو پہلے بلوچستان ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ 2011ء میں بلوچستان حکومت نے مذکورہ غیر مُلکی کمپنی کو مائننگ لائسنس کا اجرا روک دیا۔ یہاں سے اس معاملے نے ایک نیا رُخ اختیار کیا اور ٹی سی سی نے پاکستان کے کسی عدالتی فورم سے رجوع کرنے کی بجائے دو بین الاقوامی فورمز سے رابطہ کیا۔
ان میں سے ایک فورم ایکسڈ، جب کہ دوسرا آئی سی سی تھا۔ ابتدائی طور پر ٹی سی سی کی جانب سے 16ارب ڈالرز ہرجانے کا دعویٰ کیا گیا اور بین الاقوامی ثالثی عدالت نے متعدد سماعتوں کے بعد 12جولائی 2019ء کو 5ارب ڈالرز بطور جُرمانہ ادا کرنے کے احکامات جاری کیے۔ بین الاقوامی ثالثی عدالت کے اس فیصلے کے بعد بلوچستان سمیت پورے مُلک میں ریکوڈِک منصوبے پر ایک نئی بحث چِھڑ گئی۔
دوسری جانب وزیرِ اعظم، عمران خان نے اس معاملے میں غفلت کے مرتکب افراد کے تعیّن کے لیے اٹارنی جنرل کو کمیشن بنانے کی ہدایت کی، جب کہ بلوچستان اسمبلی کے فلور اور صوبائی کابینہ کے اجلاسوں میں بھی یہ معاملہ بڑی شدّ و مد کے ساتھ اُٹھایا گیا، کیوں کہ جُرمانے کی رقم بلوچستان کے کئی برسوں کے بجٹ کے مساوی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 2020ء میں جُرمانے کی رقم بلوچستان حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آئے گی۔